گمبھیر مسائل میں گِھرا کراچی

748

مسائل میں گھرے کراچی کے لیے بجلی 4.45 روپے فی یونٹ تک مزید مہنگی کردی گئی ہے۔ نیپرا کے فیصلے کے بعد پاور ڈویژن نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اضافہ گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک صارفین سے اضافی وصولیاں اکتوبر اور نومبر 2023ء میں کی جائیں گی۔ یہ اضافہ کراچی والوں کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا ہے۔ پہلے ہی مہنگائی اپنے عروج پر ہے، اور اب بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کی زندگیوں کو مزید مشکل بنادیا ہے۔
بجلی کی مہنگائی کے کئی منفی اثرات ہوں گے۔ پہلے ہی کراچی میں صارفین لوڈشیڈنگ اور بھاری بلوں سے پریشان ہیں، دوسرے اب اس کا اثر پہلے سے متاثرہ صنعت اور کاروبار کے لیے ایک بوجھ بن جائے گا، جس سے پیداواری صلاحیت اور ملازمتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ تیسرے، یہ غریب اور متوسط طبقے کو مزید غربت کی طرف دھکیلے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ ادارئہ شماریات کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق رواں ہفتے مہنگائی کی مجموعی شرح 37.7 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں 19 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پھر کراچی میں بجلی مہنگی ہونے کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی موجود ہیں۔ شہر میں صفائی ستھرائی کا فقدان، ٹریفک کا ناقص نظام اور جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ کراچی والوں کی زندگیوں کو مشکل بنارہا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی برطانوی میگزین دی اکانومسٹ کے ریسرچ اینڈ اینالیسز ڈویژن ’’اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ نے کراچی کو دنیا کے پانچ سب سے کم قابل ِ رہائش شہروں میں سے ایک قرار دیا ہے، اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ان پانچ حوالوں سے جائزہ لیا گیا تھا: استحکام، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، ثقافت و ماحولیات اور بنیادی ڈھانچہ۔ کراچی کی درجہ بندی 173 شہروں میں 169 ویں نمبر پر تھی۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، اس تناظر میں اس کا وجود اہم ہے۔ یہ سندھ کی کْل آبادی کے ایک تہائی پر مشتمل ہے۔ مالیاتی وسائل اور محصولات کا بڑا حصہ کراچی سے نکلتا ہے۔ معاشی طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے یکے بعد دیگرے حکمرانوں نے کراچی کو خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے متنازع انتظامی اقدامات کیے ہیں۔ بلدیاتی حکومت آئے عرصہ ہوچکا ہے لیکن تاحال کوئی نظام نہیں بن سکا ہے، جس کے پاس اس شہر میں طاقت ہے وہ چند سو سرمایہ کار سہولت کاروں کے ساتھ مل کر پیسہ بنارہا ہے، اور نتیجے میں لاکھوں لوگ بدتر زندگی گزارنے پر موجود ہیں۔
اس شہر کے گلی محلوں میں لوگ آج بھی پانی سے محروم ہیں، تجاوزات کا خاتمہ اس لیے نہیں ہوتا کہ متعلقہ اداروں کی جیبیں گرم ہوتی ہیں اور راشی افسران اس سارے کھیل کا حصہ ہیں۔ حال یہ ہے کہ سپرہائی وے سہراب گوٹھ سے تقریباً حیدرآباد تک جھگیوں کا ایک نیا غیر قانونی شہر بس گیا ہے، جہاں جرائم پنپ رہے ہیں اور یہ بستیاں جرائم پیشہ عناصر کی پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں، اور شہر میں داخل ہوتے وقت ایک بدترین کراچی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو دیکھا جائے تو پرانے زمانے کے جو ٹرانسپورٹر بسیں اور منی بسیں چلاتے تھے اب اْن کی جگہ بڑے سرمایہ کاروں اور تجارتی اداروں نے لے لی ہے جو شہر کی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ سندھ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اِس سے ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھیک ہوا ہے اور مستقبل میں بی آر ٹی سسٹم شہر کی نقل و حمل میں انقلاب لائے گا، لیکن ماہرین کے مطابق حقیقت اس کے برعکس ہے، یہاں تک کہ اگر تمام 7 بی آر ٹی لائنیں چلتی ہیں، تو وہ 170 بلین روپے سے زیادہ کی بھاری لاگت سے کْل مسافروں کے سفر کا صرف 9 فی صد پورا کریں گی۔ درحقیقت بی آر ٹی جیسے پروجیکٹ سے بڑی فرموں، سول اور دیگر ٹھیکیداروں، سپلائرز اور سروس پرووائیڈرز وغیرہ کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس وقت عام شہری، خاص طور پر یونیورسٹی روڈ اور اس سے منسلک مقامات کے رہائشی بی آر ٹی پر کام کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کو برداشت کررہے ہیں۔ بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی وجہ سے شہر ادھڑا ہوا ہے، سڑکیں خستہ حال ہیں، گاڑیوں اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مسافر اکثر سڑک پر غصے، مایوسی اور بے بسی کا روزانہ کی بنیاد پر مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اور بھی کئی مسائل ہیں جن پر توجہ دینے اور شہر کے پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر شہر کی قیادت مخلص لوگوں کے پاس ہو تو یہ کام کیے جاسکتے ہیں۔ شہر کی میٹروپولیٹن حدود کا تعین، تعمیراتی نظام کو ٹھیک کرنا، سڑکوں کی مرمت، امن و امان کو برقرار رکھنا، آلودگی پر قابو پاکر پانی اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانا۔۔۔ ان وسیع البنیاد کاموں پر توجہ دینے اور ایجنڈا بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ شہر جس طرح بربادی کی طرف دوڑے جارہا ہے یہ صورتِ حال انارکی کی طرف جاسکتی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کراچی کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے، اور اس کے ساتھ لوگوں کو ریلیف دینے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت پر پڑیں گے، کیونکہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے سے ملک کو مجموعی طور پر فائدہ ہوگا۔