باج گزار

847

انگریز کے دور حکومت میں ایک زمیندار نے دو سو مویشی چوری ہونے کی شکایت کی، پولیس نے تفتیش کے بعد مویشی بازیاب کرالیے، مگر زمیندار نے کہا کہ یہ اس کے مویشی نہیں ہیں، پولیس نے مزید تفتیش کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ مویشی تو شکایت کنندہ ہی کے ہیں مگر مسروق زمیندار بہت بااثر اور طاقت ور ہے جس نے ڈرا دھمکا کر انکار پر مجبور کر دیا اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس وقت کے ایک پولیس آفیسر نے کہا تھا کہ انڈیا میں جمہوریت کبھی نہیں پنپ سکتی، کیونکہ یہاں پر طاقت کی حکمرانی ہے اس پس ِ منظر میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر چرچل نے کہا تھا کہ انڈیا کو کم از کم پچاس سال تک جمہوریت کی تربیت دینا چاہیے ورنہ آزادی کے بعد یہاں کے لوگ صحیح معنوں میں غلام ہو جائیں گے، کیونکہ حکمران طبقہ ان پر ایسے ایسے ٹیکس لگائے گا کہ عوام کا جینا دو بھر ہو جائے گا اگر ہم آج کے حالات کا جائزہ لیں تو پولیس آفیسر اور مسٹر چرچل کا تجزیہ بالکل درست ہے، پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا مگر اسلامی حکومت قائم نہ کی گئی آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب بیرونی قوتوں کی لائی ہوئی ہیں یہ درست ہے کہ ہر حکومت عوام کے ووٹ سے قائم ہوئی ہے مگر وہ حکمرانی کے بجائے، درآمدہ ہدایات کی پابند رہی ہیں، کہتے ہیں کہ حکومتی نظام امریکا کی ہدایات پر چلتا ہے اور آئی ایم ایف ہمارا معاشی نظام مرتب کرتا ہے گویا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وطن عزیز کے قیام کے بعد سے اب تک کوئی بھی حکومت نہیں آئی سارے حکمران باج گزار اور عوام ٹیکس گزار رہے، راج گدی راج گیری بن کر رہ گئی، حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہر حکمران راج روگ کا دلدادہ ہوتا ہے۔

کہتے ہیں انگریز نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے نوابی اور راجواڑی کو فروغ دیا تھا بظاہر نواب اور راجا خود مختار ہوا کرتے تھے مگر وہ انگریزوں کے آلہ کار ہوتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز کے جانے کے بعد راج گدی راج گیری کیوں بنی ہوئی ہے، مسٹر چرچل نے کہا تھا کہ جس ملک کی عدلیہ خود مختار ہو اس ملک کی خود مختیاری کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملکی خود مختاری کا تعلق عدلیہ کی خود مختیاری سے ہوتا ہے، انڈیا کی تقسیم کے بعد کانگریس نے لادینی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلم لیگ نے اسلامی حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کیا بھارت نے لادینیت کا شوشا چھوڑنے کے نتیجے میں اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا، مگر اندرون خانہ بھارت ہندو ریاست ہی رہا، مسلم لیگ نے اسلامی حکومت کا اعلان کر کے قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کی مگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے بجائے لبرل حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھارت تو ہندو ریاست بن گیا مگر پاکستان دو کشتیوں کا سوار بن گیا نہ لبرل رہا نہ اسلامی۔

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے درست کہا ہے کہ نا اہل حکمرانوں نے پاکستان کو آزاد اور خود مختیار ریاست بنانے کے بجائے راج واڑا بنا دیا ہے، جو راج گیری کی قابل مذمت مثال ہے، حکمران اپنی حکومت قائم کرنے اور اس پر مسلط رہنے کے لیے عالمی قوتوں کے خدمت گزار رہتے ہیں کہ اسی میں ان کی عافیت ہے، یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کا حکمران کسی بیرونی ملک کا شہری بھی ہو سکتا ہے، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھانے والا پاکستان کا حلف بردار کیسے ہو سکتا ہے وہ پاکستانی قوانین کی پابندی کیسے کر سکتا ہے عدلیہ جو از خود نوٹس لینے میں عالمی شہرت کی حامل ہے اس نے بھی اس معاملے میں کبھی ایکشن نہیں لیا، جب تک بٹھل اٹھانے والے حلف اٹھانے والوں کی صف میں شامل نہیں کیے جائیں گے ملک میں صفِ ماتم بچھی رہے گی، یہ جو وطن عزیز میں کبھی سیاسی تو کبھی معاشی بحران آتے رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ جمہوریت کے نام پر بچہ جمہورا کی حکومت قائم کرنا ہے، جب تک اس نظام حکمرانی کو نہیں بدلا جاتا تبدیلی ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہو وہاں عوام کی دست گیری ممکن ہی نہیں، عوامی حکومت آہی نہیں سکتی، باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد بیٹی، اور پھر نواسا نواسی حکمران بنتے رہیں گے، جمہوریت میں حکومت نسل در نسل چلتی ہے، ہر آنے والا بادشاہت کے آداب سے واقف ہوتا ہے، مگر جمہوریت میں برسر اقتدار آنے والا اپنے مفادات اور تحفظات کو ترجیح دیتا ہے، یوں عوام کی گردنوں میں پڑا طوق تنگ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کو بچہ جمہورا نہ بنایا جائے بلکہ جمہوریت کو جمہوریت کے دائرہ ہی میں رکھا جائے۔