کراچی میں فضائی اور معاشرتی آلودگیاں

950

معاصر جریدے کی ایک خبر کے مطابق آلودہ ترین شہروں میں کراچی فضائی آلودگی میں سر فہرست آگیا، کسی بھی مقام پر فضائی آلودگی کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں چند، سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کا دھواں، صنعتی کیمیائی مادوں کا اخراج، فیکٹری کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، کچرے کو ٹھکانے لگانے اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا وغیرہ ہیں، اس فضائی آلودگی کے انسانی صحت پر کئی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مضر ہیں، اسی طرح سے گٹر اور جگہ جگہ کھڑا ہوا گندا پانی جس کی وجہ سے مکھیاں اور دیگر جراثیم پرورش پا تے ہیں ان سب سے انسانی صحت سے جڑے کئی مسائل جنم لیتے ہیں ان میں سے سرفہرست، سینے، پھیپھڑے اور دل کے امراض ہیں۔ امریکا کے مشہور ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل ہیلتھ سائنسز کے مطابق کراچی میں آلودگی کی سطح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اسی طرح سے امریکن ایمبیسی پاکستان میں اپنے قونصلیٹ اور ایمبیسی کی حدود میں فضائی آلودگی کی پیمائش کرتی ہے اور اس کے اعداد و شمار شیئر کرتی ہے لیکن اگر نہیں ہے فکر اس آلودگی کی تو وہ ہماری حکومتیں اور ادارے ہیں۔ آلودگی کی بات کی جائے تو فضائی آلودگیوں کے علاوہ اور بھی مضر صحت آلودگیاں ہیں جن میں پانی کی آلودگی صحت عامہ کے لحاظ سے بہت اہم ہے، اندرون سندھ پانی کے استعمال کی وجہ سے پیٹ کی کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں، آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں لوگ جوہڑوں اور تالابوں سے گدلا اور آلودہ، مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تو حیوانوں میں ایسا نظام وضع کر رکھا ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں، مثلاً اونٹ ایک ایسی عجیب الخلقت مخلوق ہے جس کو ہم شب و روز دیکھتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی اس کی تخلیق کے بارے میں شاید ہی غور کیا ہو، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں مخاطب کر کے فرمایا: ’’تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے‘‘۔ (الغاشیہ: 17) جہاں اونٹ کی خلقت میں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں اس کی اگر ہم چال پر ہی غور کریں تو دیگر چوپاؤں کے مقابلے میں اس کا چلنا بہت مختلف ہے اس کے پیر چلتے ہوئے دیگر چوپایوں کی طرح آگے پیچھے حرکت نہیں کرتے ہیں بلکہ بائیں طرف کے دونوں پیر ایک ساتھ اور دائیں طرف کے دونوں پیر ایک ساتھ حرکت کرتے ہیں، قدرت نے اس کو بڑی بڑی آنکھیں عطا کی ہیں کہ دن ہو یا رات وہ دور تک آسانی سے دیکھ لیتا ہے، صحرا میں ریت کے ذرات سے اور غبار سے فضا آلودہ ہوتی ہے تو قدرت نے اونٹ کو اس سے بچاؤ کے لیے لمبی لمبی پلکیں عطا کی ہیں، اس کے پپوٹوں کا آدھا حصہ شفاف جھلی کی صورت میں ہوتا ہے جب صحرا میں تیز آندھی ہو اور ریت کے ذرات بہت زیادہ ہوں تو وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے لیکن شفاف جھلی کے آر پار دیکھتے ہوئے چلتا رہتا ہے، ڈیل ڈول کے مقابلے میں اس کے چھوٹے چھوٹے کان باآسانی پیچھے کی طرف تہہ ہو جاتے ہیں اس سے کانوں میں ریت نہیں آتی، ناک کے نتھنے دو کٹاؤ کی صورت میں جن کے کنارے ساخت میں ہونٹوں کی طرح ہیں ریت سے بچنے کے لیے انہیں بھی بند کر لیا کرتا ہے اس طرح سانس آتی جاتی رہتی ہے اور کوئی تکلیف دہ چیز اس کی ناک میں نہیں جاتی، ’’یہ تو ہے اللہ کی تخلیق‘‘ (لقمان:11) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی تخلیق کیا ہے (ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا (التین: 4) یعنی تخلیق میں سب سے بہترین اور درجہ میں اشرف المخلوقات۔

نبی کریمؐ انبیاء میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں، الحمدللہ ہم ان ہی کے امتی ہیں، جنہوں نے ہمیں زندگی گزارنے کے طریقہ کار سے جو ہمارے رب کو ہم سے مطلوب ہے تفصیلاً آگاہ فرما دیا ہے لیکن ہمارا المیہ ہے کہ جس طرح ہم قرآن کریم کی عظمت اور اس کی کریمی کے قائل ہیں اس کی تعظیم کے حوالے سے جان دینے پر آمادہ ہوتے ہیں مگر نہ جانے کیوں اس کی تعلیمات پر مکمل اور من و عن عمل کرنے سے ہم گریزاں ہیں اسی طریقے سے نبی کریمؐ جن کا جشن ولادت ہم بہت جوش، جذبے اور احترام سے مناتے ہیں، ان سے محبت کے دعوے بھی بہت کرتے ہیں لیکن ان ہی کی لائی ہوئی تعلیمات پر جب عمل کی باری آتی ہے تو ذرا ہم اپنے آپ پر اور معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت ہم نبیؐ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ اور ان کی کتنی پیروی کرتے ہیں؟ نبی کریمؐ نے ہمیں صفائی ستھرائی کا حکم دیا اور پاکی اور ناپاکی کے فہم سے آشنا کیا، حدیث کا مفہوم ہے ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ صفائی کا مفہوم بہت وسیع ہے یہ صرف فرد تک محدود نہیں ہے، بلکہ معاشرہ بھی اس میں شامل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس حدیث کی روشنی میں فضائی آلودگی اور دیگر مضر صحت آلودگیوں کا علاج کیا جا سکتا ہے جو ہمارے اختیار میں ہیں، فضائی آلودگی ہو یا پانی کی آلودگی یا دیگر مضر صحت آلودگیاں ان کا علاج صفائی اور ستھرائی کے ذریعے ممکن ہے، اگر ہم اپنے ماحول کو صاف بنا لیں، کچرا اپنے گھر اور دکان کے سامنے سے جھاڑو لگا کر سڑک پر یا پڑوس کے گھر کے آگے نہ ڈھیر کریں، دکانوں کے سامنے جمع کر کے کچرے کو آگ نہ لگائیں، فصلوں کی باقیات کو آگ نہ لگائیں، پانی کو استعمال سے پہلے اس کی ممکنہ صفائی ہو، درختوں کو نہ کاٹا جائے، شجرکاری کی جائے یہ سب کچھ تو ہم کر سکتے ہیں بقیہ رہیں ہماری حکومتیں تو ان سے ان آلودگیوں کے خاتمہ یا عوام کو اس حوالے سے آگہی فراہم کرنے جیسی توقعات تو عبث ہیں، جس معاشرہ میں غربت لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کرے، جہاں ظلم و زیادتی ہو، جہاں ایک کثیر تعداد بچوں کی مدرسے جانے سے قاصر ہو، جہاں لوگوں کو مناسب علاج کی سہولتیں حاصل نہ ہوں، جہاں بنیادی انسانی سہولتیں میسر نہ ہوں وہاں فضائی اور دیگر مضر صحت آلودگیاں ختم کرنے کی توقع تو ایک خواب ہے، جب تک کہ ہمارے ووٹ دینے کے رویے تبدیل نہ ہوں اور ہم صالحیت اور صلاحیت کی بنا پر ایسے لیڈر اور ایسی جماعت کو اپنے ملک کے اقتدار کی اور اختیار کی کنجیاں سونپ نہ دیں جو ان کے ساتھ ہی اٹھتی بیٹھتی ہو، جو ان ہی کے جیسے گھروں میں رہتی ہو، جو ان ہی کی طرح تنگی ترشی میں گزارا کرتی ہو وہی قیادت حقیقی عوام کی مشکلات کا ادراک کر سکتی ہے اور ان کے حل کی کوشش کر سکتی ہے۔

ایک اور مضر آلودگی اخلاقی اور روحانی آلودگی ہے اور اس کا علاج بھی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ آلودگی فضائی آلودگی کی طرح کسی پیمانے سے نہیں ناپی تولی جاسکتی البتہ ہمارا ضمیر اور نفس لوامہ ہمیں اس بارے میں آگہی دیتا رہتا ہے کہ بذات خود ہم اور ہمارا معاشرہ کتنا ان آلودگیوں میں ڈوبا ہوا ہے، یہ آلودگیاں ہمارے معاشرے میں فحاشی و بے حیائی کی شکل میں، کبھی ٹیلی وژن اسکرین پر اور کبھی ہمارے ہاتھوں میں پکڑے موبائل کے ذریعے، کبھی زینب جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ حادثات اور واقعات کی شکل میں، کبھی موبائل چھینتے ہوئے کسی پیارے کو قتل کرکے اس کے خاندان سے جدا کرتے ہوئے، کبھی خواتین کے لباس کے حوالے سے مغربی تہذیب کی یلغار کی شکل میں، کبھی کرپشن، کبھی ناقص دوائیں اور انجکشن (جس سے حال ہی میں کئی افراد بینائی سے محروم ہو گئے)، کھانے پینے کی مضر صحت اشیاء اور ملاوٹ اور ان جیسی اور بہت سی آلودگیوں کی شکل میں گاہے گاہے ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں، ان آلودگیوں کی وجوہات پر غور و فکر اور ان کے علاج کی کوشش ہمارا قومی فریضہ بھی ہے، دینی فریضہ بھی ہے اور وقت کی اہم ترین ضرورت بھی۔