پاکستان اور ترکی دو برادر اسلامی ممالک، بہترین دوست، ایک دوسرے کے معاون ہیں، دونوں ممالک گہرے تاریخی، ثقافتی اور اسلامی رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے مفادات اور مقاصد کئی علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں یکساں ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ لبوں پر ترکی کا نام آتے ہی ایک مٹھاس، اپنائیت، قربت کا احساس دل میں سما جاتا ہے۔ دونوں ممالک اسلامی سربراہ کانفرنس، اقوام متحدہ اور ای سی او کے سرگرم رکن ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور دوستی تزویراتی نوعیت کی ہے اور انتہائی گہری ہے۔ پاکستانی قوم ترکی عوام اور حکومت کی مسئلہ کشمیر میں بھرپور ساتھ دینے کی شکر گزار ہے۔ پاکستان اور ترکی کے مضبوط تعلقات کی بنیاد قیام پاکستان سے قبل ہی پڑ گئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے ترکوں کی حمایت میں پورے برصغیر میں تحریک خلافت کا آغاز کیا اور پورے برصغیر میں ترکی کی حمایت میں جلسے کیے جلوس نکالے اور برصغیر کے مسلمانوں نے ترکوں کی بھرپور سیاسی اور مالی مدد بھی کی۔ ترکی کے عجائب گھر میں آج بھی وہ زیورات رکھے ہوئے ہیں جو اس وقت کی مسلمان خواتین نے ترکوں کی مدد کے لیے یہاں سے بھیجے تھے۔ 2005ء کے زلزلے میں اسی جوش اور اسلامی برادری کے عظیم الشان جذبے کے تحت ترک خواتین نے اپنے زیورات، بچوں نے اپنا جیب خرچ پاکستان کے زلزلہ زدگان کی نذر کر دیا۔
ترکی مغربی ایشیا کا ایک نہایت اہم ملک ہے جو یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور مغربی و مشرقی تہذیب کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے، ترکی کے شمال مغرب میں یونان اور بلغاریہ، شمال مشرق میں جارجیا، مشرق میں ایران، آرمینیا، آذربائیجان، عراق اور شام جنوب میں واقع ہیں اور استنبول اس کا سب سے بڑا شہر اور انقرہ اس کا دارالحکومت ہے۔ ترکی اقوام متحدہ، او ای سی ڈی، اسلامی کانفرنس، اور ای سی او ممالک کا بانی رکن ہے۔ ترکی G20 کا بھی فعال رکن ہے۔ 2012ء میں اس نے اے سی ڈی کی رکنیت حاصل کی۔
ترکی دنیا کی تیرہویں بڑی معیشت ہے۔ ترکی کی آٹو موبائل انڈسٹری کو دنیا بھر میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے جو سالانہ 13 لاکھ گاڑیاں تیار کرتی ہے اور دنیا کی 15ویں بڑی آٹو موبائل انڈسٹری ہے۔ ترکی کی برانڈز بکوک اور وسٹیل کا شمار یورپ کے بڑے برانڈز میں ہوتا ہے جو نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ترکی کی معیشت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ترکی ایک ترقی یافتہ ملک ہے جس کی صنعتیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ ترکی کا دنیا کی زرعی پیداوار میں نمایاں مقام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ٹیکسٹائل الیکٹرونک اور گھریلو اشیا کی تیاری کی صنعتیں بھی نہایت اہم ہیں ترکی فندق، انجیر، چیری، انار اور آڑو پیدا کرنے میں دنیا بھر میں اولیت حاصل ہے۔ ترکی تربوز پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پودینہ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک، ٹماٹر پیدا کرنے والا چوتھا، چائے، چقندر اور شکر قندی پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
ترکی کا ویسٹل یورپ کا سب سے بڑا ٹیلی ویژن پیدا کرنے والا، ویسٹلاور بیکو دنیا بھر کے کل ٹی وی کی پیداوار کا نصف پیدا کرتے ہیں۔ ترکی نے 11لاکھ چالیس ہزار گاڑیاں 2016ء میں دنیا بھر میں فروخت کیں۔ ترکی کی ٹیمسا (TEMSA) ٹیسلائیٹ اور ایم سی بی دنیا کی وین، بسوں اور ٹرکوں کو تیار کرنے والا بڑا ادارہ ہے۔ ترکی نے حال ہی میں ملٹری اور انٹیلی جنس کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ ترکی میں 90 ائر پورٹس ہیں جو 22 بین الاقوامی سہولتوں سے آراستہ ہیں، استنبول دنیا کا گیارہواں مصروف ترین ائرپورٹ ہے جہاں سالانہ 3 کروڑ 18 لاکھ تین ہزار سے زائد مسافروں کی آمدو رفت رہتی ہے۔ ترکی کے پاس دنیا کا 22واں ریلوے نیٹ ورک ہے جو 991 کلومیٹر پر مشتمل ہے 133 کلو میٹر الیکٹرک ٹریک بھی شامل ہیں۔
سیاحت ترکی کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ ترکی حسین مقامات کے علاوہ تاریخی، اور سماجی اہمیت کے متعدد قابل دید مقامات کا حامل ملک ہے۔ ٹریول ایجسیز ٹییو آئی اے جی اور تھامس کک کے مطابق دنیا کے 100 بڑے ہوٹلوں میں 11 ترکی میں ہیں۔ ہر سال 3 کروڑ سیاح ترکی کا رخ کرتے ہیں جو ترکی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ ترکی کا رقبہ 7 لاکھ 83 ہزار 562 مربع میل ہے جب کہ اس کی آبادی 8 کروڑ 12 لاکھ 60 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
معاشی اعداد وشمار
جی ڈی پی ( پی پی پی):- 2186 ارب ڈالر
جی ڈی پی ( الکچینوریٹ):- 85 ارب 50 کروڑ ڈالر
فی کس آمدنی: 27 ہزار ڈالر
زراعت:- ڈی جی پی کا 68 فی صد
انڈسٹری:- 32.3 فی صد
برآمدات:- 168 ارب 20 کروڑ ڈالر
برآمداتی شریک: جرمنی 9.6 فی صد، یوکے 6.1 فی صد، متحدہ عرب امارات 5.9 فی صد، اٹلی 5.4 فی صد، فرانس 4.2 فی صد، اسپین 4 فی صد
برآمداتی اشیاء: آٹو موبائل، ٹیکسٹائل، الیکٹرونک اشیاء، ٹرانسپورٹ اور آلات
درآمدات: 225 ارب 10 کروڑ ڈالر
درآمداتی اشیاء: مشینری ، کیمیکل، فیول
درآمداتی شراکت دار: چین 10 فی صد، جرمنی 9.1 فی صد، روس 8.5 فی صد، امریک 5.1 فی صد، اٹلی 4.8 فی صد