عین غین

754

نگران حکومت کب تک مسلط رہے گی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ بات یقینی ہے کہ ہونے والے انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی مشکوک بنا دیے گئے ہیں یوں بھی وطن عزیز کی سیاسی تاریخ یہی ہے کہ ہارنے والے سیاستدان دھاندلی دھاندلی کا راگ الاپتے رہتے ہیں، وطن عزیز میں الیکشن ایک ایسا عمل ہے جو ہارنے والے سیاستدانوں کو ہم آواز بنا دیتا ہے ورنہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہی ان کا سیاسی منشور اور سیاسی نصب العین ہے۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ سیاستدان 1973 کے آئین کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں مگر نگران حکومت کی تشکیل کے وقت کسی کو 1973 کا آئین یاد نہیں آتا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ نگران حکومت کی تشکیل کے لیے قومی خزانہ کیوں برباد کیا جاتا ہے، نگران حکومت سے وابستہ وزراء منتخب حکومت آتے ہی رخصت ہو جاتے ہیں مگر انہیں مراعات و سہولتیں ملتی رہتی ہیں قوم اسے تاحیات برداشت کرتی رہتی ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ نگران حکومت کا مقصد ایسے لوگوں کو وزیر اعظم اور وزیر بنانا ہوتا ہے جنہیں عوام اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے۔
تیرہ جماعتی حکومت نے ملک کو تیرہ تین کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی اور جو کمی رہ گئی تھی اسے کاکڑ صاحب کی حکومت نے لاکڑا کاکڑا کی وبا میں مبتلا کر دیا ہے، اگر ہم وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں کہتے ہیں، نگران وزیر اعظم کاکڑ صاحب کسی سے ملتے ملاتے نہیں، پھر بھی ایک سیاسی جماعت کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ وہ کسی سے ملے ہوئے ہیں اور اسے جتوانے کے لیے سرگرم عمل ہیں، حالانکہ ان کا کام صرف نگرانی کرنا ہے، کاکڑ صاحب کا کہناہے کہ جو جماعتیں الیکشن الیکشن کا ورد کررہی ہیں اور یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ الیکشن کرانا نگران حکومت کا کام نہیں یہ ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے، وہ کب الیکشن کراتے ہیں کب تاریخ دیتے ہیں ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں، البتہ نگران حکومت سے وابستہ اہم شخصیات نے جنوری 2024 میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ہے گویا الیکشن کی تاریخ دے دی ہے مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تاریخ عدالتی تاریخ بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ بعض جماعتیں جنوری میں الیکشن کرانے کے سخت خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ جنوری میں سخت سردی پڑتی ہے لوگ ووٹ ڈالنے گھروں سے نہیں نکلیں گے، اس لیے بہتر ہو گا کہ الیکشن سردیوں کے بعد کرائے جائیں، اور عوام سوچ رہے ہیں کہ الیکشن سردیوں میں ہوں یا گرمیوں میں قوم کے حالات کبھی نہیں سدھر سکتے، عوام کی یہ سوچ قابل توجہ ہے کہ الیکشن کے بعد جو بھی حکومت آئے گی،
وہ اپنی سرمایہ کاری کے منافع پر توجہ دے گی، اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے ایسے منصوبے بنائے گی جو ملک و قوم کو ادھ موا کر دیں گے۔ کیونکہ ایوان اقتدار جسے کہ قوم کا گھر کہنا چاہیے اور گھر میں گھسنے والے گھر کی زیبائش نہیں دیکھتے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس گھر میں ایسی کون کون سی قیمتی اشیاء ہیں جو ان کی سرمایہ کاری کے لیے مفید ہو سکتی ہیں، بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سیاستدان اپنی سیاست اور اپنے سیاسی نظریات دائو پر نہیں لگاتا، ان کا سیاسی نصب العین اور منشور ذاتی مفادات اور تحفظات کا حصول ہوتا ہے، تیرہ جماعتی اتحاد کو بھی ان کے تحفظات اور مفادات ملحوظ خاطر رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی سو انہوں نے بے خوف و خطر مہنگائی کا سونامی وطن عزیز میں برپا کر دیا، یہ درست ہے کہ انہوں نے بڑی بے جگری سے ملکی معیشت کو بحال کیا اور اب مہنگائی کے سونامی پر قابو پانا چاہتے ہیں، جب تک مہنگائی کا جن عوام کی قوت خرید کی بوتل میں بند نہیں ہوتا الیکشن نہیں ہو سکتے۔
جہاں تک الیکشن کرائو کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ الیکشن الیکشن کا شور مچانے والے بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ الیکشن حکومت کی مرضی کے عین مطابق ہوں گے سو ان کا مطالبہ عین غین کے سوا کچھ نہیں۔