22مارچ 2004 کی صبح حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین اپنی وھیل چیئر پر بیٹھے نماز فجر پڑھ کر واپس آرہے تھے کہ فضا میں ایک اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر نمودار ہوا اور آگ برساتے ہوئے میزائل فائر کرکے ان سمیت چھے افراد کو نشانہ بناکر شہید کردیا۔ اس واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوںکو مشتعل کردیا لیکن اسرائیل کے ٹھینگے سے۔ وہ اپنے دشمن کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل کرتا رہا۔ دشمن کی نسل کشی اور گھر میں گھس کر مارنے کا یہ سبق بھارت نے اسرائیل سے سیکھا۔ بھارت اب ایک سافٹ پاور سے ہارڈ پاور کے روپ میں سامنے آرہا ہے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل سے بھارت نے یہی ثابت کیا ہے کہ اب بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، آئی ٹی پاور اور سب سے بڑی منڈی ہونے کے ساتھ ایسی جنگجو قوت بھی ہے جو بیرون ملک حتیٰ کہ مغربی ممالک میں بھی اپنے دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کرسکتا ہے۔ اسرائیل دنیا بھر میں اپنے دشمنوں کو اغوا کر سکتا ہے، قتل کرسکتا ہے، امریکا پاکستان میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مارکر اس کی لاش اٹھا کر لے جاسکتا ہے، ڈرون حملے کرسکتا ہے تو پھر بھارت اس معاملے میں پیچھے کیوں رہے؟۔
جون 2023 میں کینیڈا میں خالصتانی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کوکینیڈا کے صوبے برٹش کو لمبیا میں ایک بازار میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس واقعہ کو کئی ممالک میں سکھ علٰیحدگی پسندوں اور انڈین حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں دیکھا گیا۔ خالصتان کے حامیوں نے ہردیپ سنگھ کے قتل کے خلاف ٹورنٹو، لندن، میلبرن اور سان فرانسسکو سمیت دنیا کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔ ہردیپ سنگھ سے پہلے پرمجیت سنگھ پنجواڑ، جنہیں بھارتی حکومت نے انتہا پسند قرار دے رکھا تھا، کو مئی 2023 میں پاکستان کے شہر لاہور میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جون 2023 میں برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ وہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ تھے۔ سکھ علیحدگی پسندوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں زہر دے کر مارا گیا ہے۔ علٰیحدگی پسند سکھ تنظیموں نے اسے ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انڈین حکومت سکھ علٰیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے۔
لاہور میں سکھ رہنما کے قتل پر حکومت پاکستان کے ردعمل کا جہاں تک تعلق ہے امریکی مکروہ کارروائیوں پر جب پاکستان اپنے ہی شہریوں کی ہلاکت کو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے سورما سفارت کاروں کے ذریعے پوری نیک نیتی سے نظر انداز کرتا رہا تو ایک سکھ رہنما کے قتل کی اس کے نزدیک کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ برطانیہ بھی ایسے معاملات کو چیونٹی کی رفتار سے زیادہ آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے اسے ذاتی مسئلہ بنا لیا۔ ٹروڈو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے G-20 اجلاس میں، وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اس قتل کا معاملہ اٹھایا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ بھارتی حکومت کا کسی طرح بھی ملوث ہونا ناقابل ِ قبول ہو گا اور ان سے تحقیقات میں تعاون کے لیے کہا تھا۔ کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے کہا کہ کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس کے سربراہ کو اسی معاملے کی وجہ سے ملک سے نکال دیا گیا ہے۔ میلانی جولی نے کہا کہ ’’اگر یہ سچ ثابت ہوا تو یہ ہماری خودمختاری اور اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی کہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرتے ہیں‘‘۔ ٹروڈو نے کہا کہ ’’گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کینیڈین سیکورٹی ایجنسیاں، بھارتی حکومت کے ایجنٹوں اور ایک کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے درمیان ممکنہ تعلق کے قابل بھروسا الزامات کی سرگرمی سے تحقیقات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں کسی طرح بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔ ٹروڈو نے مزید کہا کہ ان کی حکومت اس معاملے پر کینیڈا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، میں ممکنہ طور پر سخت ترین الفاظ میں، بھارتی حکومت سے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کینیڈا کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کرتا ہوں‘‘۔
کینیڈین وزیراعظم اس معاملے کو اس حدتک فوکس کرتے نظر آئے کہ جی 20کانفرنس کے موقع پر سرکاری سلامی کے دوران بھی انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے جلد بازی میں مصافحہ کیا اور تیزی سے وہاں سے نکل لیے۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے بھی سکھ علٰیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کھل کر ناراضی کا اظہار کیا۔ کینیڈین وزیراعظم سے بات چیت کے دوران انہوں نے بھی کینیڈا میں خالصتان تحریک کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ کھل کر اٹھایا۔ یوں جی ٹوینٹی کانفرنس کی وجہ شہرت بین الاقوامی معاشی معاملات سے ہٹ کر راج کرے گا خالصہ کی سمت مرکوز ہوگئی۔
کینیڈا میں 24لاکھ انڈین نژاد رہتے ہیں جن میں سے سات لاکھ سکھ ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر گریٹر ٹورنٹو، گریٹر وینکوور، ایڈمنٹن اور کیلگری میں آباد ہیں۔ انہیں ایک بڑے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مقامی کونسلوں اور کینیڈین پارلیمنٹ دونوں میں کئی سکھ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ یہاں رہنے والے سکھوں اور ہندئوں کے درمیان بھی علٰیحدگی اور تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے جیسا کہ برطانیہ کے لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا۔ واضح رہے کہ آپریشن بلیو اسٹار کی 39ویں برسی سے چند روز قبل 6 جون کو کینیڈا کے شہر برامپٹن میں پانچ کلومیٹر طویل جلوس نکالا گیا۔ اس جلوس کے دوران بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کی منظر کشی چلتی گاڑی پر پیش کی گئی۔ 31اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کو ان کے دوسکھ سیکورٹی اہلکاروں نے قتل کردیا تھا۔ جون 1984 میں اندرا گاندھی کے حکم پر انڈین فوج نے گولڈن ٹیمپل میں سکھ انتہا پسندوں کے خلاف خونیں کارروائی کی تھی جسے آپریشن بلیو اسٹار کا نام دیا گیا تھا۔ بھارت میں سکھوں کی آبادی دو فی صد ہے جو سکھوں کا ایک علٰیحدہ ملک خالصتان بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ کینیڈامیں سکھ علٰیحدگی پسندی کی تحریک نہ صرف بڑے زوروں سے چل رہی ہے بلکہ وہاں خالصتان کے حوالے سے ایک ریفرنڈم بھی کرایا جاچکا ہے۔
اس ساری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ انڈیا نے کینیڈا میں ایک کینیڈین شہری کو ہلاک کروادیا۔ جسے کینیڈین وزیراعظم نے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا لیکن جلد ہی جب انہیں ان حقائق کا ادراک ہوگا کہ 2022 میں انڈیا کینیڈا کا دسواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ مالی سال 2022-23 میں انڈیا نے کینیڈا کو4ارب ڈالر سے زائد کا سامان برآمد کیا تھا۔ کینیڈا نے بھی انڈیا کو اتنی ہی مالیت کا سامان برآمد کیا تھا۔ کینیڈا کے پنشن فنڈ نے انڈیا میں 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کم ازکم چھے سو کینیڈین کمپنیاں بھارت میں کام کررہی ہیں جب کہ مزید ایک ہزار کمپنیاں یہاں اپنے کاروبار کے مواقع تلاش کررہی ہیں تو سکھ رہنما کے قتل پر مزید سیاپا انہیں خسارے کا سودا محسوس ہونے لگے گا۔ بھارت کے ساتھ تجارت، بھارت کی بڑی منڈیاں اس واقعے کو اس طرح کھا جائیں گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور پھر کینیڈا اور انڈیا اچھے بچوں کی طرح ہنسی خوشی رہنے لگیں لگے۔ ممکن ہے دونوں کے مابین سکھوں کے لطائف کا تبادلہ بھی ہونے لگے۔