بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس میں بیان کردہ موقف

752

آخری حصہ

(۱۱) ہمارے انتخابی قانون میں یہ شرط ہے: ’’اگر کسی حلقۂ انتخاب میں دس فی صد عورتوں کے ووٹ نہ پڑیں، تو وہاں دوبارہ انتخاب کرانا ہوگا، نیز یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت پانچ فی صد ٹکٹ خواتین کو دے‘‘، ہماری معلومات کے مطابق دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ایسی شرائط نہیں ہیں۔

(۱۲) صوبۂ سندھ میں ’’تبدیلیِ مذہب‘‘ کے قانون میں قرار دیا گیا ہے: ’’اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی لڑکی اسلام قبول کرنا چاہے تو اُسے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش کیا جائے گا، وہ اُس کے لیے مذاہب کے تقابلی مطالعے کا انتظام کرے گا اور جب اُس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے، تو جج اُسے قبولِ اسلام کی اجازت دے گا‘‘، یہ رضا علی الکفر ہے اور کفر کا باعث ہے۔ کیا ہمارے ہاں منتخب اداروں کے تمام اراکین نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے کہ ایک نوجوان کے قبولِ اسلام کے لیے اتنی کڑی شرط عائد کی جائے۔

(۱۳) جڑانوالہ سانحے کے بعد اظہارِ یکجہتی کے لیے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، چیف جسٹس، اعلیٰ سرکاری حکام، بہت سے مسلمان مذہبی رہنما سر کے بل چل کر پہنچے اور تین دن میں ہر متاثرہ مکان کے لیے بیس بیس لاکھ کے چیک بھی تقسیم کردیے گئے، کیا کسی بڑے سانحے کے بعد اتنی عُجلت مسلمانوں کے لیے بھی دکھائی گئی ہے، بلکہ اس سے چند دن پہلے باجوڑ میں جلسۂ عام میں خود کش دھماکہ ہوا، سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئے اور دو سو کے قریب زخمی ہوئے، وہاں تو کوئی بھی نہیں گیا، ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

(۱۴) عام طور پر ایسے مواقع پر کسی تحقیق کے بغیر تحریکِ لبیک پاکستان پر الزام لگادیا جاتا ہے، جڑانوالہ سانحہ پر بھی ایسا ہی ہوا، بعض یوٹیوبر نے تو حد کردی، حالانکہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے خود کہا: ’’ٹی ایل پی کے ذمے داران نے امن قائم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا‘‘۔ سیالکوٹ کے سانحے کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا، تب بھی میں نے کہا تھا: الزام لگانے سے پہلے تحقیق کرلیجیے، اس کے بعد سکوتِ مرگ طاری ہوگیا۔ اگر کوئی فساد کرکے ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ یا ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے چل پڑے، تو کیا تحقیق کے بغیراس کا الزام ٹی ایل پی یا حکومتی اداروں پر لگادیا جائے گا، یہ تو مجرموں کے لیے قانون کی گرفت سے نکلنے کا آپ نے آسان راستہ تجویز کردیا ہے، خدارا تحقیق کے بغیر ایسا نہ کریں، قرآنِ کریم میں ہے: ’’مومنو! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی کے سبب کسی قوم کو تکلیف پہنچائو، پھر تمہیں اپنے کیے پرشرمسار ہونا پڑے‘‘۔ (الحجرات:6)

(۱۵) ایسے سانحات کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی وجوہ کا بھی تعیّن کرکے اصل مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے، ورنہ کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ردِّعمل تو آئے گا، کیونکہ دینی مقدّسات کی بے حرمتی مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے، سانحہ جڑانوالہ کے بعد کئی دنوں تک سرگودھا کی مسجد کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر قرآن کے اوراق زمین پر ڈالے جاتے رہے، بڑی مشکل سے علماء اور انتظامیہ نے اس صورتِ حال پر قابو پایا۔

(۱۶) پرویز مشرف تو لبرل اور مذہب بیزار تھے، انہوں نے پارلیمنٹ سے جبراً ’’حقوقِ نسواں‘‘ کا ایکٹ پاس کرا کے قوانینِ حدود کو غیرمؤثر کردیا، اس کے بعد عدالتوں میں حدود کے مقدمات آنا رک گئے، اس کا نقصان ہی ہوا، کیونکہ: ’’جب عدالت کا راستہ بند کردیا جاتا ہے، تو لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ آپ اعداد وشمار جمع کرلیں، اس کے بعد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوئے ہیں اور بہت سے واقعات تو رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ اپنے تمام تر لبرل نظریات کے باوجود پرویز مشرف کو کہنا پڑا: ’’غیر مسلموں نے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے توہینِ رسالت مآبؐ کو ایک ذریعہ بنالیا ہے، کیونکہ اگر مجرم قانون کی گرفت میں آجائے اور جرم ثابت ہوجائے تو مغربی ممالک انہیں اپنے ہاں پناہ دینے اور اپنے ملکوں کی قومیت دینے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں، آسیہ مسیح سمیت ایسی درجنوں مثالیں ریکارڈ پر ہیں۔ لاہور میں دن دَہاڑے قتلِ عَمد کا جرم کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کے لیے عدالت چل کر جیل میں آئی، مقتولین کے ورثاء کو دیت لینے پر آمادہ کیا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کو اعزاز واکرام کے ساتھ ائرپورٹ پہنچا کر خصوصی طیارے میں امریکا روانہ کردیا گیا، اس کے باوجود پاکستان ’’بدنام‘‘ ہے اور اہلِ مغرب ’’نیک نام‘‘ ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں این جی اوز بناکر ان کو وسائل سے مالا مال کردیا ہے، اس لیے وہ پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

(۱۷) ہمارے ہاں تضادات کا عالَم یہ ہے: ’’قراردادِ مقاصد کو دستور کا نافذ العمل حصہ بنائے جانے کے بعد آئینی اعتبار سے لازم ہے کہ قرآن وسنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے: قومی اسمبلی میں دس غیر مسلم اراکین ہیں اور اُن کا ووٹ دینے کا حق مسلم اراکین کے برابر ہے۔ پس اگر کسی قانون کے قرآن وسنّت کے مطابق نہ ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہورہی ہو اور ایک طرف 170 مسلم ارکان ہوں اور دوسری طرف 162مسلم ارکان کے ساتھ دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ شامل ہوجائیں تو 162 مسلم اراکین کے مقابلے میں 170 مسلم اراکین کی اکثریت بے اثر ہوجائے گی اور دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرجائیں گے اور قرآن وسنّت کے خلاف قانون بن جائے گا، حافظ شیرازی نے کہا ہے:

(مفہومی ترجمہ:) ’’میرا خیرخواہ کس فکر میں ہے اور میں تباہ حال کس مقام پر ہوں، دیکھو تو سہی: ہماری منزل کی سَمتوں کا فرق کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے‘‘، پس فیصلہ کیجیے: ’’مظلوم اکثریت ہے یا اقلّیت‘‘۔

(۱۸) ہمارے ہاں تو حال یہ ہے: سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کے لیے قواعد وضوابط اور رکن بننے کی اہلیت کے قانون پر بحث ہورہی تھی، ہندو نمائندے نے کہا: ’’ہمیں بھی رویت ہلال کی کمیٹی کا رکن بنایا جائے‘‘، اب کوئی اُن سے پوچھے: ’’رویتِ ہلال کمیٹی تو مسلمانوں کے مذہبی ایام کے تعیّن کے لیے بنائی گئی ہے، اس سے آپ کا کیا لینا دینا ہے؟، الغرض کافی بحث کے بعد مولانا عبدالغفور حیدری ’’جان بچی، سو لاکھوں پائے‘‘ کا مصداق بنے۔

(۱۹) میں نے مسیحیوں سمیت غیر مسلموں کے تمام مذہبی نمائندوں کو پیش کش کی: ’’آپ جب چاہیں، ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اور ہر قانونی اور جائز مطالبے کی حمایت کریں گے، ہمارے لیے ہمارے رسول مکرّمؐ اور امیر المؤمنین فاروق اعظمؓ کا اُسوہ کافی ہے، ہم آج بھی اس پر قائم ہیں، رسول اللہؐ نے اہلِ نجران کو اُن کے انسانی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ضَمانتیں لکھ کردی تھیں:

ترجمہ: ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ! نجران اور اُس کے قرب وجوار میں رہنے والے مسیحیوں کی جانوں، اُن کے دین، اُن کی زمین، اُن کے مالوں، اُن کے حاضر وغائب، اُن کے قبیلے، اُن کی عبادت گاہوں اور اُن کے ماتحتوں کے لیے اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی محمدؐ کا یہ ذمّہ اور ضمان ہے: ’’اُن کے حقوق اور اُن کے مذہب کے حوالے سے جو کچھ انہیں حاصل ہے، اُس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، اُن کے مذہبی رہنمائوں کو اُن کے منصِب سے ہٹایا نہیں جائے گا، جب تک وہ خیرخواہی اور اصلاح پر قائم رہیں گے، اُن سے زمانۂ جاہلیت میں کیے گئے جرائم کا خوں بہا نہیں لیا جائے گا، اُن پر زیادتی کی جائے گی اور نہ کوئی بھاری بوجھ ڈالا جائے گا، اس دستاویز میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی محمد رسول اللہؐ کا ضَمان ہمیشہ کے لیے ہے یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے کوئی حکم آجائے‘‘۔ (سبل الھدیٰ والرشاد)

امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ نے فتحِ بیت المقدس کے موقع پر اُسوۂ رسالت مآبؐ کے اتباع میں وہاں کے مسیحیوں کو یہ عہد نامہ اور ضَمان عطا کیا:

’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ!یہ امن کی وہ ضَمانت ہے جو اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین نے ’’ایلیاء‘‘ کے رہنے والوں کو عطا کی: انہوں نے ان کی جانوں، مالوں، کلیسائوں، صلیبوں، ہر بیمار وتندرست اور پوری ملّت کو یہ امان عطا کیا اور عہد کیا: اُن کے کلیسائوں میں کوئی رہائش اختیار نہیں کرے گا، انہیں منہدم کیا جائے گا اور نہ انہیں اُن کے مقام سے ہٹایا جائے گا، اُن کی حدود میں کمی نہیںکی جائے گی، اُن کی صلیبوں کو نہیں لیا جائے گا، اُن کے مالوں میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ دین کے معاملے میں اُن پر کوئی جبر کیا جائے گا، نہ (بلاسبب) ان کو تکلیف پہنچائی جائے گی، نہ بیت المقدس میں ان کے ساتھ کسی یہودی کو ٹھیرایا جائے گا۔ ہاں! اس امان کے عوض اہلِ ایلیاء دوسروں کی طرح جزیہ دیں گے، اُن پر لازم ہے کہ وہ رومیوں کو بیت المقدس سے نکالیں، اگر ان رومیوں سے کوئی نکل کر جائے گا تو اپنے جائے پناہ پر پہنچنے تک انہیں جان ومال کا تحفظ دیا جائے گا، جو ان میں سے یہاں رہنا چاہے تو اُسے بھی اَمان ملے گی اور ان پر بھی دوسروں کی طرح جزیہ ہوگا۔ بیت المقدس کے رہنے والوں میں سے جو اپنے صلیبوں اور جان ومال سمیت روم جانا چاہے گا تو انہیں ان کی جائے پناہ پر پہنچنے تک تحفظ دیا جائے گا، پھر جو چاہے رومیوں کے ساتھ رہے اور جو واپس اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنا چاہے تو ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا، یہاں تک کہ اُن کی فصلیں کاٹ لی جائیں (تو قانون کے مطابق جزیہ لیا جائے گا)۔ اس دستاویزمیں جو ضمانتیں دی گئی ہیں، ان کی پاس داری اللہ تعالیٰ، اس کے رسولِ مکرّم،آپؐ کے خلفاء اور تمام مومنوں پر پر لازم ہے، جب تک کہ وہ جزیہ دیتے رہیں، اس دستاویزپر خالد بن ولید، عمرو بن عاص، عبدالرحمن بن عوف، معاویہ بن ابی سفیانؓ کی گواہی ثبت ہے اور یہ عہد نامہ پندرہ ہجری کو لکھا گیا‘‘۔ (تاریخ الطبری) نوٹ: اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی چیز لازم نہیں ہوتی، اس کا مطلب یہ ہے: اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق مسلمانوں پر عہد کی پاس داری لازم ہے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس حکومت واقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ پس سبق یہ ہے: دینی وملّی حمیّت کے ساتھ رہنا چاہیے، دوسروں کے آگے بے حمیّتی کے ساتھ بچھ جانا کبھی افتخار کا باعث نہیں رہا، بلکہ اپنے جائز موقف پر ڈٹے رہنا ہمیشہ غیور قوموں کا شِعار رہا ہے، مگر کیا کیجیے، علامہ اقبال نے کہا ہے:

مگر یہ راز آخر کھُل گیا، سارے زمانے پر
حمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے