اسرائیلی روایت سے آغاز کرتے ہیں: ایک قاضی القضاہ (منصف اعلیٰ) کی موت کا وقت آیا تو وصیت کی کہ دفن کیے جانے کے کچھ عرصے بعد میری قبر کو کھول کر دیکھا جائے۔ میں نے سنا ہے انصاف کرنے والے قاضی کے بدن کو مٹی نہیں کھاتی۔ میں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیںکی۔ ہمیشہ حق اور انصاف کے مطابق فیصلے دیے اور کسی کا لحاظ نہیں کیا۔ بادشاہ وقت، وزیر وزراء اور بڑے بڑے لوگوں کے مقدمات میری عدالت میں پیش ہوئے، مجھ پر بے پناہ دبائو ڈالا گیا، بڑی بڑی رقوم اور مراعات کا لالچ دیا گیا لیکن میں نے کسی چیز کو اہمیت نہیں دی اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ میری عدالت میں دوست احباب اور عزیز رشتے داروں کے مقدمات بھی پیش ہوئے لیکن میں نے کسی رشتے اور تعلق کی پروا نہیں کی۔ شناسا اور اجنبی سب کو یکساں توجہ کے ساتھ سنا۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی عزیز کا مقدمہ میرے سامنے تھا۔ میں نے اس کی بات فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ کان لگا کر سن لی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات مجھے یاد نہیںجو غلط کی ہو۔
اگلے ہی دن قاضی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ بڑے اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کی گئی۔ وصیت کے مطابق کچھ عرصے بعد ان کی قبر کھول کر دیکھی گئی تو قبر خوشبوئوں سے مہک رہی تھی۔ پورا بدن یوں تروتازہ تھا جیسے ابھی ابھی دفنا یا گیا ہو البتہ دایاں کان مٹی نے کھا لیا تھا۔
زندگی کے تقاضوں اور اس کی دشواریوں سے نبرد آزما قوموں کے لیے جو اوصاف اہم ترین ہیں عدل ان میں سب سے اعلیٰ اور ارفع وصف ہے جس سے پھوٹتی کرنیں زندگی کو روشن کرتی اور دوام بخشتی ہیں اور جس کی کمزوری اور تذلیل قوموں کے وجود کو مٹی کردیتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہونے کے بعد انصاف کی چکا چوند سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی، زندگی میں فوری طور پر توازن آجائے گا، طویل المیعاد کامرانیوں کے جزیروں پر ہماری کشتیاں لنگر انداز ہوجائیںگی لیکن بقول فیض یہ تو کہا جاسکتا ہے:
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چند چاک گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں
ٹھیری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں
معمولی پروٹو کول میں اپنی گاڑی میں آنا، ’گرد‘ آف آنر کا نہ لینا، عدالت عظمیٰ کے پندرہ ججوں کا فل کورٹ، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی کی لائیو نشریات، عدالتی عملے سے خطاب میں عدالت عظمیٰ آنے والے سائلین سے مہمانوں جیسے حسن سلوک کی تلقین، سب کچھ بہت خوش آئند ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ۔ یہ سب کچھ ایک نئی زندگی کی طرف پیش رفت کے زور دار رحجان کا عکاس ہے لیکن سب کچھ تقدیس کی استر کاری ٹھیرے گی جب تک عدل کی پختہ کاری اس میں شامل نہیں ہوجائے گی۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ پندرہ رکنی فل کورٹ کے معزز جج صاحبان اور وکلا کے دلائل عوام نے اپنے ٹی وی کی اسکرینوں پر براہ راست دیکھے۔ معلوم ہوا کہ کون بالغ نظر افراد انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ عوام نے وکیل خواجہ طارق رحیم کی کارکردگی بھی دیکھی جو آئین کی حدود میں رہ کر جواب دینے کی صلاحیت میں ناکام نظر آئے حالانکہ انہیں جادوگر کہا جاتا ہے، فیس بھی بھاری بھرکم لیتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے دن ایک بہت اہم معاملے کو سماعت کے لیے منتخب کیا۔ پاکستان میں طاقت کی تقسیم۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل۔ 10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا جو عدالت عظمیٰ میں بینچوں کی تشکیل سے متعلق تھا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی کا بینچ نہیں بنائے گا بلکہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل تشکیل دیے گیا بینچ سنے گا، اسے نمٹائے گا اور اکثریت سے فیصلے سنائے گا۔ 12اپریل کو اس بل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ یہ ایکٹ عدلیہ کے اختیار میں مداخلت ہے۔ 13اپریل کو عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس بل پر عمل درآمد کو روک دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھا دیا گیا کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے حوالے سے قانون سازی کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واضح طور پر یہ موقف رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہونے چاہییں۔ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ امکان یہی ہے کہ فیصلہ آٹھ سات کے تناسب سے آئے گا اس کے باوجود ایگزیکٹو اور انتظامیہ کے لیے اس کی حکم عدولی ممکن نہیں ہوگی جیسا کہ کچھ عرصے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
آئندہ الیکشن کا نوے دن میں انعقاد، تحریک انصاف جو قاضی صاحب کے خلاف صدارتی ریفرنس لائی تھی اس سے متعلق فیصلوں میں شفافیت، مسلم لیگ ن کی ان سے وابستہ امیدیں خاص طور پر میاں صاحب کی واپسی، یہ سب چیف جسٹس فائزعیسیٰ کے لیے بڑے چیلنجز ہیں لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج وہ 56ہزار مقدمات ہیں جو عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں۔ جو عام آدمی سے متعلق ہیں۔ ان مقدمات میں ان کے دور میں کتنی کمی آتی ہے، عام آدمی کو کتنا انصاف ملتا ہے، یہ ان کا اصل امتحان ہے۔
محترم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ذاتی اوصاف، عقل واستدلال کی قوت کا درست استعمال یقینا فیصلوں میں جھلکتا نظر آئے گا لیکن تصویر کا ایک دوسرارخ بھی ہے۔ وہ لادینی جمہوریت اور سرمایہ داریت کے ایسے نظام عدل کے اندر رہ کر کام کرنے پر مجبور ہیں جس نے دنیا کو ظلم وجور سے بھردیا ہے۔ جن ممالک میں یہ نظام بہ تمام وکمال کام کرتا نظر آتا ہے وہاں بھی ممکن نہیں کہ ایک عورت سونا اُچھالتی ہوئی ایک شہر سے دوسرے شہر تو کجا ایک محلے سے دوسرے محلے جاسکے۔ یہ نظام خوف خدا پیدا نہیں کرتا۔ قدم قدم پر نصب کیمروں، جرمانوں اور پولیس کی تیزرفتار موجودگی کے خوف سے لوگ جرائم سے اجتناب برتتے ہیں جہاں یہ حفاظتی اقدامات موجود نہ ہوں، نظام ذرا ڈھیلا پڑے وہاں دیکھیے کیا حشر ہوتا ہے۔ اس نظام میں کیسا ہی منصف مزاج جج آئے اس نے کفریہ سیکولر قوانین کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور انگریزوں کی ظالمانہ باقیات کا تسلسل رکھنا ہے۔ عدل صرف اللہ اور اس کے رسول کے پاس ہے۔