بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس میں بیان کردہ موقف

866

16اگست2023ء کو جڑانوالہ میں المناک سانحہ رونما ہوا، اُس کی ہم نے اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے، ایسے واقعات ملک وقوم کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں، اس پس منظر میں ’’وفاقی وزارتِ مذہبی امور وبینَ المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے زیرِاہتمام اسلام آباد میں ’’بینَ المذاہب ہم آہنگی کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ اس میں پاکستان بھر سے مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے مذہبی رہنما شریک ہوئے، انہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا اور اپنی مظلومیت کے حوالے دیے، مجھے اس موقع پر سب سے آخر میں خطاب کا موقع دیا گیا اور میں نے مندرجہ ذیل حقائق پیش کیے، وقت کی قلّت کے سبب تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں تھا، اس لیے میں نے اس کالم میں بقیہ ضروری نکات کا بھی حتی الامکان احاطہ کیا ہے، لیکن بنیادی نکات وہی ہیں، جو اس کانفرنس میں پیش کیے گئے:

(۱) تصوف میں ایک ’’فرقۂ ملامتیہ‘‘ ہوتا ہے: ’’روحانی کمالات کا حامل کوئی صاحبِ علم وتقویٰ شخص بعض اوقات ایسی حرکات کرتا ہے کہ لوگ اُس کے قریب نہ آئیں، اُس سے عقیدت کا تعلق قائم نہ کریں تاکہ وہ الگ تھلگ رہ کر اپنے ذکر وفکر اور عبادت میں مشغول رہے، اللہ تعالیٰ کی ذات سے لَو لگائے رکھے اورلوگوں کے ہجوم سے دور رہے‘‘۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے: ہم پاکستانی بحیثیتِ قوم ’’خود ملامتی‘‘ کے خوگر ہیں، ہمارے میڈیا میں شیشے کے گھروں میں رونق افروز براڈکاسٹر، اینکر پرسن اور تجزیہ کار پاکستان اور اہلِ پاکستان کو کوسنے لگ جاتے ہیں، اپنی خرابیوں کی تشہیر کر کے اسکرین کی رونق بڑھاتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے: ’’پچیس کروڑ پاکستانیوں میں کوئی ایک بھی خوبی نہیں ہے کہ اُسے عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے‘‘۔

(۲) الزام یہ لگایا جاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں، خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں، وغیرہ‘‘۔ ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے: پاکستان کے آئین وقانون سے ’’اقلّیت‘‘ کا لفظ نکال دیا جائے، کیونکہ ہمارے ہاں ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ اقلّیت کا لفظ بولتے ہی ذہن میں ’’غیرمسلم‘‘ کا تصور آتا ہے، حالانکہ یہ ایک اِضافی اصطلاح (Relative Term) ہے، مثلاً: پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے اگر ہندو اقلّیت میں ہیں، تو بھارت میں بیس کروڑ ہونے کے باوجود مسلمان اقلّیت میں ہیں۔ پس ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم شہری کو، خواہ وہ خاندانی اور نسلی اعتبار سے چلا آرہا ہے یا اُس نے بعد میں پاکستانی قومیت اختیار کی ہے یا قانونی ویزالے کر پاکستان میں آکر مقیم ہوگیا ہے، وہی حقوق حاصل ہیں، جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ دستورِ پاکستان سب غیر مسلموں کو جان، مال، عزت وآبرو اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت دیتا ہے، سو ہم سب پاکستانی ہیں: مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی، اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، جبکہ اقلّیت کے لفظ سے محرومیت کا تاثّر پیدا ہوتا ہے، میں نے یہ تجویز بھی پیش کی: ’’Minority Commission کا نام بدل کر ’’Commission for Protection the Rights of Non-Muslims‘‘ رکھ دیا جائے۔

(۳) مسلمان یورپ، امریکا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا میں عددی اعتبار سے اقلّیت میں ہیں، لیکن وہاں اقلّیت کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی، جو وہاں کی قومیت کو اختیار کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو امریکن، کینیڈین، آسٹریلین، یورپین اور برٹش کہلاتا ہے، زیادہ سے زیادہ وہ مسلم امریکن کہلاتے ہیں، علیٰ ھٰذا القیاس۔ مسلمانوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن وہاں کے میڈیا پر ہم نے کبھی نہیں سنا: ’’اَقلیتوں پر حملہ ہوگیا ہے یا اُن ممالک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ اس کو عمومی انداز میں بے امنی، فساد یا دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو سوال یہ ہے: پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا، یہاں تو فوراً اقلیتوں کی محرومی کا رونا رویا جاتا ہے، ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، کیا پاکستان میں مسلمانوں کی مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، اسکولوں، درس گاہوں، عام مقامات اور عوامی اجتماعات پر خودکش حملے نہیں ہوئے، کیا اُس وقت یہ کہا جاتا ہے: ’’پاکستان میں مسلمان یا اکثریت محفوظ نہیں ہے، ہمارا مجموعی جانی نقصان اسّی ہزار سے زیادہ بتایا جاتا ہے، آبادی کے تناسب سے بھی مسلمانوں کا نقصان غیر مسلموں سے کم نہیں ہے‘‘۔ پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ اسے پاکستان کے نقصان سے تعبیر کیا جائے، ایک خاص رنگ نہ دیا جائے کہ پاکستان دنیا بھر میں رسوا ہو۔ ہمارے ہاں تو مسیحیوں کے کلیسائوں، ہندوئوں کے مندِروں، سکھوں کے گردواروں اور پارسیوں کے آتش کدوں پر بھی پولیس کے محافظ متعین کیے جاتے ہیں، جبکہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کے باوجود اس طرح کا حفاظتی بندوبست نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود تکرار کے ساتھ کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔

(۴) امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپ، برطانیہ، بھارت الغرض تمام جمہوری ممالک کی پارلیمنٹ، کانگریس اور قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے لیے ایک بھی محفوظ نشست نہیں ہے، جس نے ان اداروں میں آنا ہو، اُسے عام انتخاب میں آزاد یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ بن کر کامیابی حاصل کر کے آنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں غیر مسلموں کو عام انتخابات میں مسلمانوں کے برابر ووٹ دینے کا حق ہے، لیکن اُن کے لیے محفوظ نشستیں بھی ہمارے قانون ساز اداروں میں رکھی گئی ہیں، اس کے باوجود کہا جاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔

(۵) سول اور دفاعی اداروں کی سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی برابر حصہ لے سکتے ہیں، علاوہ ازیں اُن کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹا بھی مختص ہے، لیکن جدید ترقی یافتہ ممالک میں، جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانیت کا چمپئن سمجھتے ہیں، مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کا کوئی کوٹا مختص نہیں ہے، اس کے باوجود کہا جاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔

(۶) جمہوری دنیا کی کسی پارلیمنٹ، کانگریس یا قانون ساز ادارے میں خواتین کے لیے کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہیں، اس کے برعکس پاکستان کی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے تمام منتخب اداروں میں خواتین کے لیے محفوظ نشستوںکا کوٹا رکھا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی محفوظ نشستوں کا تناسب 17.5فی صد، پنجاب اسمبلی میں 17.7فی صد، سندھ اسمبلی میں 22.6فی صد، پختون خوا اسمبلی میں 15.1فی صد اور بلوچستان اسمبلی میں 16.9فی صد رکھا گیا ہے، اس کے باوجود کہا جاتا ہے: پاکستان میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تو ٹرانس جینڈر کے لیے بھی سرکاری ملازمتوں میں دوفی صد کوٹا مختص کردیا گیا ہے۔ الغرض دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو ’’فرماں بردار اور اچھا بچہ‘‘ بناکر پیش کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود دنیا اور ہمارا لبرل میڈیا آئے روز یہ فتوے صادر کرتے ہیں: ’’پاکستان میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔

(۷) ایک سیمینار میں ایک مسیحی مذہبی رہنما نے کہا: ’’ہم کسی عیسیٰ کو نہیں جانتے، ہم تو مسیح کو جانتے ہیں‘‘، میں نے کہا: ’’کوئی بات نہیں، آپ عیسیٰ کو نہیں جانتے، ہم سیدنا مسیحؑ کو جانتے ہیں، آپ بھلے اپنے کو مسیحی کہلائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، اسی طرح ہندو اپنے آپ کو ’’ویدانتی (وید وں کے ماننے والے) کہلائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔

(۸) میں نے یہ بھی کہا: ’’قرآن وسنّت اور شریعت کی رو سے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین کا انکار کرے، وہ کافر کہلاتا ہے، لیکن ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے: ’’اگر کافر کہے جانے پر کوئی غیر مسلم اپنی توہین محسوس کرے، تو ہمارے نزدیک تو وہ کافر ہیں، لیکن ہمیں انہیں کافر کہنے پر اصرار نہیں ہے، ہم انہیں اُن کے مذہب کے حوالے سے ہندو، مسیحی، سکھ اور پارسی وغیرہ کہہ دیں گے‘‘۔

(۹) میں نے کہا: عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کوئی غیر مسلم لڑکی کسی مسلمان لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوکر اسلام قبول کر تی ہے اور شادی کرلیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات مغربی ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں، وہاں کی حکومتوں کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن یہاں کسی تحقیق وتفتیش کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے کہ غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے اور تبدیلیِ مذہب پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، ایسا کرنا اسلام، آئین، قانون اور اخلاقیات کی رُو سے جائز نہیں ہے۔ میں نے کہا: ’’اگر آپ جبر ثابت کردیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پریس کلب میں جاکر آپ کے ساتھ پریس کانفرنس کریں گے‘‘، کیونکہ اسلام میں جبراً تبدیلی مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے، قرآنِ کریم میں اس کی ممانعت ہے۔ ایک مسیحی مذہبی رہنما نے کہا: تیرہ سال کی لڑکی کو تو شعور ہی نہیں ہوتا، میں نے کہا: اگرچہ کوئی بھی بالغہ عورت اپنی آزادانہ مرضی سے نکاح کرسکتی ہے، والدین کی مرضی سے کرے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے اور سب جانتے ہیں: عورت کی بلوغت کا معیار کیا ہے، اسلام کی رُو سے اگر پہلے علاماتِ بلوغت ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر اُسے بالغ تصور کیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کے قانون میں شادی کے لیے پہلے سولہ سال عمر مقرر کی گئی تھی اور اب اٹھارہ سال کردی گئی ہے۔ لیکن اگر واشنگٹن میں وائٹ ہائوس یا لندن میں 10 ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے کوئی دس سال کا سفید فام لڑکا یا لڑکی کلمۂ طیبہ پڑھ کر عَلانیہ اسلام قبول کرلے، تو امریکا کا قانون اُسے کچھ نہیں کہتا، ایسی پابندیوں کا مطالبہ صرف پاکستان میں کیا جاتا ہے۔

(۱۰) میرے دعوے کا ثبوت یہ ہے: صوبۂ سندھ میں دو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے دو مسلمانوں لڑکوں سے شادی کی، اس پر کسی تحقیق کے بغیر پورے میڈیا پر واویلا مچادیا گیا: لڑکیوں کو اِغوا کر کے جبراً مسلمان بنایا گیا ہے، چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں اپنی عدالت میں بلایا اور دو ہفتے کے لیے اپنے ہندو والدین کے ساتھ بھیج دیا، دو ہفتے کے بعد اُن لڑکیوں نے عدالت میں آکربیان دیا: ’’ہم نے کسی جبر واکراہ کے بغیر بخوشی اسلام قبول کیا ہے، اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں‘‘، چنانچہ عدالت نے انہیں اُن کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ کئی بار ایسا ہوا: کسی مسلمان لڑکی نے گھر سے نکل کر والدین کی مرضی کے خلاف کسی شخص سے شادی رچالی، این جی اوز کی بیگمات ایسے جوڑوں کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے انتظار میں رہتی ہیں، اگر ان کے والدین عدالت سے رجوع کریں: تو عدالت ان لڑکیوں کو اپنے والدین کے ساتھ بھیجنے کے برعکس دارالامان بھیج دیتی ہے۔ بتائیے! عدالتوں کا امتیازی رویہ غیرمسلم لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے یا مسلمان لڑکیوں کے ساتھ، یہ سب سامنے کے حقائق ہیں، کوئی افسانوی داستانیں نہیں ہیں، اس کے باوجود لوگ منفی پروپیگنڈے سے باز نہیں آتے۔