بڑی خبر جو لٹیروں کے لیے بُری ثابت ہوئی کہ عدالت عظمیٰ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی جانے والی 10 میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دے کر لٹیروں کا چین و قرار چھین لیا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے مدت ملازمت کے آخری روز یہ فیصلہ سنایا جو 58 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تین رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی نے فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ 2 نے تائید کی۔ اس فیصلے سے 7 سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر، 14 سابق وزراء اعلیٰ، 78 سابق وزرا، 176 سابق ایم پی اے اور 114 افسران کے کیس کھل گئے۔ ان ملزمان میں پی پی پی کے 89، مسلم لیگ (ن) کے 62، تحریک انصاف کے 47، ایم کیو ایم کے 8، مسلم لیگ (ق) کے 12، جمعیت علما اسلام کے 12، ضیا لیگ کا ایک، پختون خوا پارٹی، وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے 11 ارکان شامل ہیں جنہوں نے لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تجوریاں بھریں، اب اس کے خلاف مقدمات اور انکوائریاں پھر شروع ہوں گی۔ اس فہرست میں اگر کسی پارٹی کا نام و نشان نہیں ہے تو یہ اعزاز صرف جماعت اسلامی کو حاصل ہے جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں، اچھے اور داغدار کی چھانٹی کا پیمانہ داغدار حکمرانوں نے اپنے بچائو کی خاطر عیار دکانداروں کی طرح یوں تبدیل کردیا تھا کہ 50 کروڑ تک کی لوٹ کو چھوٹ رہی۔ اس سے زیادہ ہو تو نیب اُس کے عیب تلاش کرے ورنہ زحمت بھی نہ کرے۔ یہ دنیا کا اچھوتا قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے بنا ڈالا۔ یوں وہ پاک پووتر ہوگئے۔ اور لٹیروں کو بھی چھوٹ دے دی کہ 50 کروڑ روپے کی چھوٹ ہے مزے کرلو۔
سیانے کہتے ہیں کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ بندیال صاحب کے دیگر فیصلوں سے لاکھ اختلاف سیاسی ہوں گے مگر اس فیصلے سے اختلاف صرف لٹیرے ہی کو ہوگا۔ اور اب بلال زرداری بڑے دور کی کوڑی لائے ہیں کہ نیب ایک آمر کا ادارہ ہے اس کو بند ہونا چاہیے اور بلا تفریق احتساب ہونا چاہیے۔ یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پھر اگر بانسری ہی بجانی ہے تو طاقتوروں کو بھی تگنی کا ناچ نچائو۔ اسلام کے نام لیوا جمعیت علما اسلام کے ترجمان نے کہا کہ جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر چیف جسٹس نے جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ کے فیصلے کو سبوتاژ کیا ہے سبحان اللہ حضرت مولانا کیا دور کی کوڑی لائے۔ وہ فرمان رسولؐ کو اس موقع پر بتاتے کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔ سو کسی کو مت چھوڑو۔ مگر وہ جمہوریت کی آڑ میں اپنی پارٹی کی لوٹ کی پردہ پوشی کرکے کتمان حق کے مرتکب ہوئے۔ سچ اور حق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ’’نیب ترامیم ذاتی مفاد کے لیے کی گئیں‘‘ یعنی اب مفاد پرستوں پر فیصلے سے ضرب پڑی تو اس ادارے پر برس پڑے، کچھ قانون دان جو بھاری فیسوں سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کی مہارت رکھتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں متنازع فیصلہ ہے اڑا کر رکھ دیں گے۔ اس فیصلے کی زد میں کہتے ہیں کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی آئے ہیں۔ انہوں نے حیران کن بیان دے ڈالا کہ میں مغل بادشاہ نہیں ہوں گے کہ دس سیاست دانوں اور دس بیورو کریٹس کو لائن میں کھڑا کرکے گولیاں ماردوں۔ یوں انہوں نے یہ بات صاف کردی کہ لٹیروں کو جان کی امان ہے۔ زیادہ سے زیادہ جیل کی ہوا کھا لینا۔ بس ہم کو لینا دینا کچھ نہیں۔ لٹیروں کا کہنا ہے کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ یہاں تو چمڑی بھی سلامت رہتی ہے۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ بیان قوم کی اُمنگوں کے خلاف ہے جو خون پسینہ کی کمائی سے خزانے کا پیٹ بھرتے ہیں اور انہوں نے اس بات کی کھوج بھی نہیں کی کہ نگراں وزیراعظم نے بیرون ملک میں تعلیم کے دورانیہ میں اپنے آپ کو افغانی لکھوایا تھا۔ وہ نتائج کی طلب گار تھی۔ رہا یہ کہنا کہ نگراں حکومت جی ایچ کیو کا سویلین چہرہ نہیں، بالکل درست ہے، جی ایچ کیو کے حافظ عاصم منیر صاحب نے تاجروں کے وفد سے ملاقات میں لوٹ کی کسوٹی یہ بتائی کہ یہ کل کیا تھے آج کیا ہوگئے۔ یہی فارمولا لٹیروں کی پڑتال کا ہے مگر نگراں حکومت اس پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، پتا نہیں اس کو کون سی سیاسی، معاشی مجبوری ہے، ملک کی معیشت لب بردم ہے، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ لٹیروں سے لوٹے ہوئے اربوں، کھربوں روپے، ڈالرز وصول کرکے معیشت کی زندگی کو برقرار رکھنے کا سامان کیا جائے اور اس کے لیے آخری حد تک جانا پڑے تو جایا جائے۔ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ سخت گیر اقدامات نہیں کرسکتے تو کرسی چھوڑ دو، یا ان سے کرسی چھڑوالو۔ جرأت مندانہ فیصلے ہی جینے کی راہ ہوتے ہیں، افغان سرحد پر فوج کے سخت گیر اقدامات نے ڈالر مافیا، اسمگلر اور پاکستان دشمن عناصر کو ان کی اوقات یاد دلادی۔ نگراں حکومت کم از کم یہ کرے کہ لٹیروں کی ملک میں جائداد ضبط کرے، جمعیت علما اسلام کے ترجمان کا فتویٰ کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے فیصلے کی بے توقیری ہے تو حضرت جی ذرا یہ بتلائیں کہ عوام نے آپ کو ایوانوں میں لوٹ کھسوٹ کرنے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو، بات تو امیر جماعت اسلامی کی بڑھ کر ہے اور مبنی بر شریعت و انصاف ہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 988 بڑی کمپنیوں و سیاسی بااثر افراد کو جو 4 کھرب 20 ارب 6 کروڑ روپے قرضہ معاف کیا تھا ملکی معیشت کی زبوں حالی کے مدنظر ان سے وصول کیا جائے۔ بات دو لفظ میں ہے کہ لٹیروں سے نجات میں ہی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ نگراں حکومت اس معاملے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں غصہ اُبل رہا ہے کہ ان کو تو مہنگائی کے کوڑے مارے جارہے ہیں اور لاڈلے مزے کررہے ہیں۔ احتساب سب کا، کڑی سزا ہر اک کو، لوٹا ہوا مال پائی پائی کی واپسی کرانے والے کو قوم حکمراں کے طور پر قبول کرے گی۔
میں نے اک عمر ستاروں کی زبان سیکھی ہے
مجھ کو معلوم ہے یہ رات گزر جائے گی