معاشی ابتری: حکمراں طبقے کی ذمہ داریاں

674

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑجن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ پاکستانی سیاست اور عوامی حلقوں میں کوئی جانی پہچانی اور مقبول شخصیت کے مالک نہیں ہیں اور راقم الحروف کی طرح بے شمار دیگر افراد نے اْن کا نام ہی شاید پہلی مرتبہ سُنا اور پہلی مرتبہ ہی انہیں ٹی وی پر دیکھا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اْنہوں نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ شستہ اردو بولتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ سنجیدہ مسائل پر گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں، لیکن صد افسوس کہ انہیں عوام کو در پیش ہولناک مسائل کا قطعاً ادراک نہیں۔ بجلی کے حد سے زیادہ بھاری بھر کم بلوں کے مسئلے پر اْن کا موقف کبھی عوام کے حق میں نہیں رہا۔ بقول اُن کے یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا اُسے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور اس پر احتجاجاً شٹر ڈاون اور ہڑتالیں کی جا رہی ہیں، اْنہوں نے اپنے ایک فرمان عالی شان میں یہ بھی فرمایا بلکہ دھمکی دی کہ بل تو دینے پڑیں گے اور بل ادا نا کرنا بھی بجلی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ نگراں وزیر اعظم نے بجلی کے ظالمانہ بلوں کے مسئلے پر متعدد اجلاس بھی منعقد کیے ہیں جن کا نتیجہ آئی ایم ایف کے سامنے کئی مرتبہ دست سوال طلب کرنے کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ آیا ہے کہ دوسو یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کو محصولات کے ضمن میں کچھ چھوٹ دی گئی ہے، جبکہ ایک چھے سو مربع فٹ کے فلیٹ میں جس میں صرف دو چھت کے پنکھے، ایک ٹی وی، ایک استری تین سے چار ایل ای ڈی بلب ایک فرج اور ایک موبائل فون چارجر ہوں اس کا بل بھی دو سو یونٹس سے زیادہ آئے گا۔ یہ سہولت دے کر حکومت نے اپنے تئیں حاتم کی قبر پر لات ماری ہے اور غریب عوام کو لولی پاپ دیکر بہلانے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ اس خالصتاً اندرونی مسئلے میں جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے

حکومت کا بار بار عالمی مالیاتی ادارے سے بھیک مانگنا ریاست پاکستان اور عوام کی صریحاً تو ہین ہے جس پر اس حکومت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ کرے، اپنے شاہانہ اخراجات میں معقول حد تک کمی کرے، محصولات کے نظام کو بہتر اور شفاف بنائے، اْس کی بنیاد کو وسیع کرے اور بڑی مچھلیوںسے وقت پر محصولات وصول کرنے کا اہتمام کرے اْس نے سب سے سہل طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ بجلی کے بلوںکے ذریعے عوام پر مختلف النوع محصولات مسلط کر دیے جائیں۔ اس سے عوام پر کیا اثر پڑے گا، وہ کس طرح ان جا برانہ بلوں کو ادا کریں گے، ادا کر بھی سکیں گے یا نہیں اس سے اس ملک کے نااہل اور بے غیرت حکمرانوں کو کوئی سروکار نہیں۔

نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ اْن کی شرائط پر معاہدے کر کے عوام کی پشت میں خنجر گھونپا، پھر نون لیگ کی حکومت اور اُس کے بعد ایوان اقتدار میں براجمان ہونے والوں نے بھی ان معاہدوں کو جاری رکھ کر اور توسیع دیکر عوام کے ساتھ مزید ظلم کیا اور معاشی دہشت گردی کا یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے ملکی مفاد اور عوام کی بہتری کے لیے کیے جاتے ہیں لیکن ان معاہدوں سے یہ تلخ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ حکمرانوں نے اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کی با قاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی جو تیس پینتیس ہزار روپے کماتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی نظر ہو جاتا ہے، دیگر اخراجات و ضروریات وہ کہاں سے پوری کرے گا ظالم اور بے حس حکمرانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے عذاب میں مبتلا عوام دْہائیاں دے رہے ہیں، اپنے گھر کا سامان بیچ کر اور قرض لیکر بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو دامن اٹھا اٹھا کر بد دعائیں اور کو سنے دے رہے ہیں۔ غریب شکستہ حال اور بے بس افراد جو کچھ نہیں کر سکتے وہ اس یزیدی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے معصوم بچوں سمیت موت کی آغوش میں پناہ لے رہے ہیں کیونکہ اس عہد ستم گراں میں اْن کے لیے مرنا آسان اور زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔

بجائے اس کے کہ حکمراں ہوش کے ناخن لیں، زمینی حقائق اور عوام کو درپیش مسائل کی ہولناکی کو ختم نہیں تو اس کی شدت کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کریں، بجلی کمپنیوں کے ذریعے وصول کیے جانے والے جابرانہ محصولات اور دیگر ناجائز وصولیوں کے عوام دشمن نظام پر نظر ثانی کریں اور کسی معقول اور قابل عمل حل کی راہ نکالیں، وہ بجلی کے نرخوں میں گزشتہ کئی سہ ماہیوں سے دس روپے بتیس پیسے فی یونٹ کے حساب سے مزید اضافہ کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یہ عمل پہلے سے مشتعل عوام کو مزید اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔ نگران وزیر اعظم نے ایک موقع پر بڑی ڈھٹائی سے فرمایا کہ ’’بجلی کے بل زیادہ آرہے ہیں تو کیا ہوا؟ پوری دنیا میں مہنگائی ہے‘‘۔ اپنی دانست میں عوام کے لیے بڑے ایثار اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ’’عوام کو ریلیف دینے کے لیے اپنے کمرے کا ائر کنڈیشنر بند کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جو شہباز شریف نے کی تھی کہ ’’میں اپنے کپڑے بیچ کر غریب عوام کو آٹا فراہم کروں گا‘‘۔ عوام کی اس معاشی بد حالی کی ذمے دار وہ حکو متیں ہیں جنہوں نے آئی پی پیز سے عوامی اور ملکی مفاد کے خلاف مہنگے ترین معاہدے کیے اوریہ ظالمانہ اور عوام دشمن معا ہدے دو چار آئی پی پیز سے نہیں کیے گئے بلکہ ان کی تعداد نوّے ہے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں ایک طرف بجلی بنانے والے ادارے کھرب پتی ہوگئے تو دوسری طرف عوام کو لوٹنے کے اس مکروہ عمل میں حکمران اور طاقتور حلقے یا تو خاموش تماشائی بنے رہے یا پھر وہ بھی فیضیاب ہوئے، اس کا فیصلہ عوام بہترکر سکتے ہیں۔

اس وقت ملک جس معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے اور سیاسی حلقوں اور ماہرین معیشت میں یہ حساس موضوع زیر گفتگو بھی ہے، لیکن اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی جامع اور ٹھوس حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر موجودہ صورتحال مزید برقرار رہی اور بجلی کے بلوں میں شامل جابرانہ محصولات اور دیگر ظالمانہ وصولیاں ختم یا کم نہ کی گئیں اور روز افزوں مہنگائی کے عفر یت پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو حکمراں سری لنکا طرز کے شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ ایسی صورت میں نہ ان کی حکمرانی باقی ر ہے گی، نہ شاہ خرچیاں اور نہ ہی شاہی پروٹوکول بلکہ شاید انہیں عوامی غیظ و غضب سے بچنے کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانا بھی نہ ملے، لہٰذا ایسی صورتحال سے بچنے اور معیشت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کر نے کی اشد ضرورت ہے۔