چترال میں کیا ہورہا ہے

815

چترال ایک چھوٹا سا شہر ہے جو ضلع چترال میں ہے۔ پاکستان کا یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ چوٹی ضلع چترال کو وسط ایشیا کے ممالک سے علٰیحدہ کرتی ہے۔ وسط ایشیا براعظم ایشیا کا ایک ایسا وسیع علاقہ ہے جس کی سرحدیں کسی سمندر سے نہیں لگیں اپنی مخصوص جغرافیائی حیثیت کے باعث چترال کی اہمیت ہے۔ موجودہ دور میں وسط ایشیائی مسلم ممالک (ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، کرغستان، قازقستان) کی آزادی نے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ چترال کے باشندے انتہائی پرامن ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف ہیں یہاں چوری اور دیگر جرائم بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق یہاں کی وادیوں میں بڑے جرائم قتل فائرنگ یا چھوٹے جرائم مثلاً چوری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مقامی لوگ پرامن ہیں، لڑائی جھگڑوں میں نہیں پڑتے اسی لیے خاص کیلاش کی وادی کو ’’زیرو کرائم‘‘ کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں عموماً لوگ ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتے۔ چترال کی ایک اہم شخصیت عبدالکبر چترالی ہیں جو چترال کے حلقے NA-1 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں یہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ چترالی لگاتے ہیں۔
آج کل چترال کی خبروں میں رہنے کی ایک اہم وجہ عسکریت پسندوں کا حملہ ہے جو انہوں نے 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر چترال کے سرحدی علاقوں میں کیا۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔ ٹی ٹی پی نے اس پرامن وادی کو کیوں اپنی دہشت گردی کے لیے چنا؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ تحریک طالبان پاکستان کیا ہے؟ اس کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے، یہ لوگوں کو قتل کرکے سر قلم کرنے، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے کئی علمائے دین اور امن کمیٹی کے ارکان کو بھی شہید کیا، یہ مسجدیں شہید کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی شہریوں کو خود کش بم دھماکوں میں شہید کرچکے ہیں انہوں نے فوجی اداروں پر بھی حملے کیے اور ہزاروں پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا۔ انہوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں حملہ کیا، بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا، خواتین اساتذہ کو بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا۔ وزیرستان آپریشن کے دوران ان کے بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے تھے۔ یوں بظاہر امریکا اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن کئی مواقعے پر امریکا کی ان کے لیے درپردہ حمایت سامنے آئی جیسے 2009ء میں وزیرستان آپریشن شروع ہوتے ہی ناٹو فورسز نے افغانستان کی طرز کی چوکیاں یکدم خالی کردیں تا کہ وہاں سے طالبان آسانی سے افغانستان میں داخل ہوسکیں۔ پاکستان میں طالبان کے کسی بھی حملے سے قبل امریکا اور بھارت ایسے شہریوں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایات دیتے تھے، یوں لگتا تھا کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کا پہلے سے علم ہوجاتا تھا۔ پاکستان نے 2009ء میں امریکی سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں پر مشتمل ثبوت امریکا کو دیے اس میں واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی معاونت کرتے ہیں۔ اس وقت کے پاکستان میں افغان سفیر سے کہا کہ بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کررہا ہے۔ طالبان کی چترال میں حملے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی موجودگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ سوات اور مالاکنڈ آپریشن کے بعد مالاکنڈ ڈویژن سے نکل گئے تھے۔ طالبان بھارت کے کہنے پر پاکستان میں کارروائی کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو نہ صرف بھارت اور امریکا استعمال کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں بلکہ افغان حکومت نے بھی اس کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند چترال سے واپس چلے گئے ہیں۔ اس کی وجہ افغان طالبان کا حملہ ختم کرنے کا پیغام تھا جو ان کو پہنچایا گیا کہ ’’ان کی وجہ سے افغان طالبان حکومت اور افغان عوام کو مشکلات پیش آرہی ہیں اور اس وجہ سے افغان پاکستان بارڈر بند ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ طالبان سے کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے امید لگائی گئی تھی لیکن یہ تو الٹا ہی معاملہ ہوا کہ بھارت تحریک طالبان کو پاکستان کا کشمیر کے لیے جو موقف ہے اس کے ردعمل کے طور پر استعمال کرنے لگا۔ کیا وہ کوئی نظریہ رکھتے ہیں یا محض ایک ٹول ہیں جس کو بھارت تک استعمال کررہا ہے ان کو سوچنا چاہیے۔