آئینی معاملات اور عدالت عظمیٰ

714

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئینی معاملات میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ انہوں نے اپنے دور کا نئے عدالتی سال کا آخری خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال بھر میں عدالت عظمیٰ نے 23 ہزار مقدمات نمٹائے ۔ اس سے قبل یہ تعداد پہلے زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ہزار تھی، البتہ ہم زیر التوا مقدمات 50 ہزار سے کم نہ کرسکے ، صرف 2 ہزار مقدمات میں کمی ہوسکی۔ اس تقریب میں انہوں نے آئندہ چیف جسٹس کی تعریف بھی کی لیکن اس تقریب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کی توجہ 90 روز میں انتخابات کرانے کے آئینی معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، گویا انہوں نے ایک مرتبہ پھر آئینی مسئلہ چھیڑ دیا۔ انہوں نے صدر مملکت سے بھی کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا جلد اعلان کریں۔ یہ مجلس عدالت کے نئے سال کے آغاز پر ہونے والی روایتی مجلس تھی لیکن اس میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ ملک کے بہت سے مسائل کے حوالے سے نشاندہی کررہی ہیں کہ یہ مسائل اب بھی حل ہونے والے نہیں۔ عابد زبیری نے بنیادی حقوق کے مسئلے پر توجہ دلاتے ہوئے بنیادی مسائل کو چھیڑا ہے ۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی آڑ میں بنیادی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے عدالت کو پھر آئینی مسائل میں الجھانے والی بات کردی کہ ان معاملات پر مقدمات کی سماعت جلد شروع کی جائے ۔ لیکن یہ بات پوری قوم کو برسوں سے بتائی جارہی تھی کہ عدالت عظمیٰ آئین کی تشریح کرنے والا ادارہ ہے ، اگر آئین کی تشریح اس کی ذمے داری ہے تو پھر آئینی معاملات میں الجھانا کیا معنی۔ دوسری بات یہ کہ کوئی زبردستی تو آئینی معاملات میں عدالت عظمیٰ کو نہیں اْلجھا سکتا۔ دراصل آئینی معاملات الجھتے کیوں ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عدالتوں اور ججوں کی جانب سے فیصلوں کے لیے آئین اور قانون کو دیکھنے کے بجائے کسی اور کے اشارے کا منتظر رہنا ہے ، جب عدلیہ آئینی معاملات کو آئینی طریقے سے نہیں سلجھائے گی تو وہ الجھے گی۔ کسی اور پر اس کا الزام رکھنا درست نہیں۔ چیف جسٹس نے جن 23 ہزار مقدمات کے نمٹائے جانے کا ذکر کیا ہے ذرا ان کے شروع ہونے سے نمٹائے جانے تک کے وقفے کا بھی جائزہ لیا جائے ۔اور یہ کہ مقدمات نمٹائے ہی گئے ہیں یا انصاف بھی ہوا ہے ؟ اور جو 50 ہزار سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں وہ کیوں ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مقدمات طویل عرصے تک زیر سماعت رہتے ہیں۔ مقدمات کی طوالت کا سبب عدلیہ اور ججوں کی نااہلی سے زیادہ عدالتی نظام ہے جس میں مقدمات کا غیر ضروری التوا ہوتا ہے ۔ ان مقدمات میں جب ضرورت ہو ججوں کی چھٹی، بنچز کا بننا اور بگڑنا، ایک دوسرے کے بارے میں ایسے ریمارکس دینا کہ جن سے عدلیہ میں تقسیم کا تاثر پیدا ہو، اور یہ تاثر محض تاثر نہیں ہے بلکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ عدلیہ میں تقسیم ہے ۔ ایک بنچ ضمانت دیتا ہے دوسرا منسوخ کرتا ہے ۔ ایک عدالت ضمانت منسوخ کرتی ہے دوسری دیتی ہے ۔ ایک عدالت کسی اقدام کو جائز قرار دیتی ہے اور دوسری طویل عرصہ گزرنے کے بعد اسے عدالتی قتل قرار دے دیتی ہے ۔ اب تو وہ لطیفہ بھی درست معلوم ہونے لگا ہے جس میں لوگ کہتے تھے میں اچھا وکیل کرلوں گا اور انہیں مشورہ دیا جاتا تھا کہ مقدمہ جیتنا ہے تو جج کیوں نہیں کرلیتے ۔ آج کل تو نواز شریف کا وکیل عمران خان کا وکیل زبان زد عام ہے ۔ خود چیف جسٹس اس معاملے میں غیر جانبدار نظر نہیں آتے ۔ ایسے میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر ہونے والے اس اجلاس میں جو گفتگو ہوئی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ عدلیہ مزید آئینی مسائل میں الجھنے جارہی ہے ۔ مودبانہ گزارش یہی ہے کہ آئینی معاملات میں الجھتے اسی لیے ہیں کہ آئین کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ چیف جسٹس نے نامزد چیف جسٹس کے بارے میں تعریفی کلمات بھی ادا کیے اور یہ بھی کہا کہ ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ آئین اور قانون پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے ۔ ویسے یہی امید جناب عمر عطا بندیال سے بھی تھی کہ وہ آئین اور قانون پر عمل یقینی بنائیں گے ۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے عدالتی نظام میں کمزوریوں کی درست نشاندہی کی ہے ۔ انہوں نے بہت واضح طور پر کہا کہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کا کوئی شفاف نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے یہ بھی بجا کہا کہ مقدمات کے مختصر فیصلے کی نئی روش چل پڑی ہے ۔ بسا اوقات تفصیلی فیصلہ آنے تک ججز ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں، کچھ مقدمات میں لارجر بنچ تشکیل دینے کی ہدایت کی جاتی ہے لیکن وہ تشکیل نہیں پاتے ۔ یہ سارے مسائل صرف اس لیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ خود فیصلہ کرنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھتی ہے ۔ اس کے بعد الجھانے اور الجھنے کا شکوہ بھی غیر ضروری ہوجاتا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ نامزد چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ نئے اور ارجنٹ کیسز فائل ہونے کے بعد اسی ہفتے میں فکس کیے جائیں۔ ایسے کیسز کی بھی بڑی تعداد ہے جو محض ایک یا پہلی سماعت کے منتظر ہیں۔ ہارون الرشید نے عدلیہ میں پسند ناپسند یا طاقتور والے معاملے کی بھی نشاندہی یہ کہہ کر کی ہے کہ چند خاص لوگوں کے کیسز دائر ہوتے ہی سماعت کے لیے مقرر ہوجاتے ہیں۔ ایک تو ہر ایک کو آنے والے چیف جسٹس سے توقعات باندھنے اور ان پر ذمے داریاں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ، جو لوگ ابھی ان مناصب پر ہیں اور معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں ان پر بھی اتنی ہی ذمے داری ہے جتنی آنے والے چیف جسٹس پر ہوسکتی ہے یا ہونی چاہیے ۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اگر اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کریں اور آئین کی پامالی سے بچیں تو ایسے بحران پیدا ہی نہیں ہوں گے ۔ جہاں تک آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا تعلق ہے اگر یہ قوانین صرف ایک شخص یا گروہ کے لیے نہیں بن رہے تو سب پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں۔ خود عدلیہ اور فوجی افسران بھی اس سے بالا نہیں ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عدالت اپنے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔بہرحال اس کا جواب تو موجودہ عدلیہ ، چیف جسٹس اور نامزد چیف جسٹس کو دینا ہوگا۔اب تک تو وہ اس میں ناکام ہی ہیں ،عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عدالت عظمی کو الجھانے والے کام عدلیہ ،ارکان پارلیمنٹ ،وکلا اور بالادست ادارے بھی کرتے ہیں اور اب نیا معاملہ اٹھ کھڑا ہونے کو ہے کہ صدر مملکت بھی صدر کے منصب کے بجاے پارٹی کارکن بن کر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں اس سے نیا تنازعہ کھڑا ہوگا ، لگتا ہے سارے معاملات نامزد چیف جسٹس کے حوالے ہی کئیے جائیں گے ، تو پھر موجودہ عدلیہ کے ذمہ کیا تھا۔اور ہاں وکلا بھی دیکھیں کہ وہ مقدمات کو طول دینے کا کام کیوں کرتے ہیں۔