نگراں حکومت کا تصور

527

بھارت، برطانیہ، یورپی یونین، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، ترکیہ سمیت دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں قومی انتخابات پہلے سے قائم حکومت ہی کے تحت ہوتے ہیں، اسے ’’سٹنگ گورنمنٹ‘‘ کہتے ہیں، یہ حکومت اپنی آئینی مدت کے اختتام کے بعد نئی حکومت کے آنے تک نگراں حکومت ہی ہوتی ہے، اس لیے انتخابی مہم کے دوران انتخابی حلقوں میں نئے ترقیاتی کاموں کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ قومی انتخابات کی شفافیت، ثقاہت، اعتبار، نیز منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کا مدار مضبوط اعصاب، مضبوط قوتِ ارادی، قوتِ فیصلہ اور صلاحیت وقوتِ نافذہ کے حامل چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن پر ہے، نیز لازم ہے کہ اُس میں ہر طرح کا دبائو برداشت کرنے کی اہلیت، صلاحیت، ہمت اور حوصلہ ہو تاکہ وہ کسی فریق کے دبائو میں نہ آئے۔ آج کل پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کی جومختلف صورتیں ہیں، ان کو بھی ثبوت وشواہد کے بغیر دبائو ڈالنے، بے پرکی اڑانے اور نظام کو بے اعتبار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں وٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔ ان پر قابو پانا اب بظاہر کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ لیکن یہ دودھاری تلوار ہے، اگر ان کو استعمال کرنے والے بے خوف وخطر ہوں، دیانت دار ہوں، کسی فریق کے طرف دار نہ ہوں، غیر جانبدار ہوں، ملک میں شفافیت اور انصاف کا فروغ ان کا مشن ہو، تو یہ اصلاح کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔

1973 کے اصل دستور میں نگراں حکومت کا کوئی تصور نہیں تھا، چنانچہ 1977ء میں جب اُس وقت کے وزیر اعظم جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اسمبلی کو تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کرائے تو وہ انہی کی حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوئے، لیکن انتہائی متنازع قرار پائے، وہ اسمبلیاں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے آگے ٹھیر نہ سکیں اور بالآخر یہ تحریک جمہوریت کے تسلسل، منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ قومی انتخابات کے انعقاد کے بجائے 5جولائی 1977ء کے مارشل لا پر مُنتج ہوئی، الغرض جمہوریت کی گاڑی ایک مرتبہ پھر پٹڑی سے اتر گئی، اسی کو انگریزی میں ’’Derail‘‘ ہونا کہتے ہیں۔

اس کے بعد 1985میں جنرل ضیاء الحق کے تحت غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے، 1988، 1990، 1993 اور پھر 1997 کے قومی انتخابات میں نگراں حکومت تھی، مگر یہ کوئی آئینی تقاضا نہیں تھا، بلکہ چونکہ اُس وقت کی اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کرکے حکومتیں معزول کردی گئی تھیں، اس لیے ایک نگراں سیٹ اپ بنایا گیا اور پھر اُسی کے تحت انتخابات منعقد ہوئے۔ 2002 کے انتخابات جنرل پرویز مشرف کے تحت ہوئے، ان اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی اور اُن کی قائم حکومتوں ہی میں 2008 کے انتخابات منعقد ہوئے۔

بنگلا دیش میں خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں نگراں حکومت کا تصور پہلی بار آیا، لیکن بعد ازاں حسینہ واجد نے اس روایت کو ختم کردیا اور اپنی حکومت کے تحت ہی انتخابات منعقد کراتی چلی آئی ہیں، اگرچہ وہاں بھی قومی انتخابات میں دھاندلی اور حکومتی جبر وجور کے الزامات لگتے رہتے ہیں، مگر اُن کا اندازِ حکومت جابرانہ ہے اور ہر مخالف تحریک کو کچل دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں پارلیمنٹ نے 8اپریل 2010 کو اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی اور اُس میں قرار دیا گیا: منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے پر ازخود تحلیل ہوجائے گی، پہلے سے قائم حکومت اقتدار سے فارغ ہوجائے گی اور نئے شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ قومی انتخابات کے لیے قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مشورے سے نگراں وزیرِ اعظم کا تقرر ہوگا، اگر اُن میں کسی ایک وزیر اعظم پر اتفاق نہ ہوسکا تو پارلیمانی کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی اور اگر وہ بھی متفقہ وزیر اعظم کے انتخاب میں ناکام رہی تو پھر دونوں طرف کے دیے گئے ناموں میں سے وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ کے طور پر کسی ایک کا انتخاب الیکشن کمیشن کرے گا، جیسا کہ 2023 میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی دستبرداری کے بعد نگراں وزیرِ اعلیٰ محسن علی نقوی کا تقرر کیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ نگراں سیٹ اپ میں بھی جو انتخابات ہوئے، ان کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھتے رہے، شکست خوردہ فریق نے دھاندلی کے الزامات لگائے، کبھی قبل از انتخابات دھاندلی کا الزام لگا، کبھی پولنگ کے دوران دھاندلی کے الزامات لگے اور کبھی مابعد انتخاب دھاندلی کے الزامات لگے، کبھی ریٹرننگ افسروں کا انتخاب قرار دیا گیا۔ 2018 کے انتخابات تو انتہائی متنازع تھے، مقتدرہ نے کھلے عام انتخابات میں دخل اندازی کی، سب سے پہلے قابلِ انتخاب امیدواروں کو ایک خاص پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا، پھر نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ پر اُس وقت کی معتوب جماعت کے امیدواروں کو ایسے مرحلے پر جماعتی وابستگی سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا کہ اُسے متبادل امیدوار میدان میں اتارنے کی مہلت بھی نہ ملی، اُن کی قیادت کو پسِ دیوارِ زنداں کردیا گیا۔ پھر آخری مرحلے میں پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر رہی، پریزائڈنگ افسروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ وٹس ایپ کے ذریعے انتخابی نتائج فوری طور پر ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کو ارسال کریں تاکہ نتائج کے اعلان میں تاخیر نہ ہو، اسے آر ٹی ایس کا نام دیا گیا، لیکن عین وقت پر یہ سسٹم بٹھا دیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نتائج کئی دنوں تک آتے رہے۔ الغرض انتخابات میں یہ دخل اندازی عیاں بھی تھی اور مستور بھی، عَیاں اس لیے کہ سب کو کھلی آنکھوں سے نظر آرہی تھی اور مستور اس لیے کہ کوئی کسی کا نام نہیں لے سکتا تھا، کبھی بات بھی ہوتی تو اشاروں کنایوں میں، مولانا فضل الرحمن نے اسی لیے پسِ پردہ کارفرما قوتوں کو ’’نکّے دا ابا‘‘ کا نام دیا تھا، سلیم کوثر کا یہ شعر اس کی درست تعبیر ہے:

میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے

اس قومی المیے میں ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی انتہائی مکروہ، گھنائونا اور جانبدارانہ کردار ادا کیا، وہ مقتدرہ کے آلۂ کار بنے اور ایسے فیصلے صادر کیے جو عدل اور عدالت کی پیشانی پر کلنگ کا ٹیکہ اور انمٹ داغ ہیں۔ اس حوالے سے عالی مرتبت جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، اعجاز افضل خان، عظمت سعید شیخ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، منیب اختر اور مظاہر علی اکبر نقوی کے نام نمایاں ہیں۔ عدالت عظمیٰ اپیلٹ کورٹ کے بجائے ٹرائل کورٹ بنی، جسٹس ثاقب نثار نے تو شیخ رشید کی انتخابی مہم چلائی، وہ اپنے عہد کے سلطان راہی بنے ہوئے تھے، سلیم کوثر نے کہا ہے:

وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، پہ مری سزا کوئی اور ہے

مگر آج وہی کرّوفر والے عالی مرتبت جج صاحبان نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں، اُن کا اُس وقت کا کردار باعثِ افتخار نہیں، بلکہ باعثِ ننگ وعار ہے، منیر نیازی نے کہا تھا:

آنکھوں میں اڑ رہی ہے، لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اب پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نگراں حکومت کے اختیارات میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جانے والی حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں، وہ انہیں جاری رکھ سکے اور اُن کے تحت جو اقدامات ضروری ہیں، وہ انجام دے سکے تاکہ خدانخواستہ کسی سبب انتخابات نوے دنوں سے مؤخر ہوں تو ملک کسی اور بڑے اقتصادی بحران میں مبتلا نہ ہو۔

پہلی تجویز میں نگراں حکومت کو نئے معاہدات کی بھی اجازت دی گئی تھی، مگر پھر اسے واپس لے لیا گیا اور صرف منتخب حکومت کے طے شدہ معاہدات کو جاری رکھنے کی منظوری دی گئی ہے، نئے معاہدے کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف کے بعض اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، اس پر بعض ارکانِ پارلیمان کو تحفظات ہیں، لیکن بہرحال قانون بن چکا ہے۔

ہمارے ہاں الیکشن کمیشن اور نگراں سیٹ اپ میں ریٹائرڈ جج صاحبان اور صحافیوں کو بھی آزمایا گیا، لیکن وہ اچھے، قابلِ اعتماد اور دبنگ منتظم ثابت ہوئے اور نہ وہ کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر گئے، کسی حد تک سابق بیوروکریٹ اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر مضبوط قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کے حامل ثابت ہوئے، لیکن سابق حکومت کے دور میں رسوائے زمانہ ڈسکہ الیکشن میں نا اہلی اور دھاندلی کے ذمے دار افسروں کو قرارِ واقعی سزا نہ دلوا سکے، کیونکہ لاہور ہائی کورٹ ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ گزشتہ کئی برسوں سے اعلیٰ عدلیہ نے بعض عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں سے ماتحت عدالتی نظام کو غیر مؤثر اور مفلوج کر رکھا ہے، بی آر ٹی پشاور وغیرہ منصوبوں میں کرپشن کی تحقیقات کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے دیے، مگر عدالت عظمیٰ نے اس پر غیرمعیّنہ مدت کے لیے حکمِ امتناع جاری کردیا۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو الیکشن ٹریبونل نے نا اہل قرار دیا اور الیکشن کمیشن نے ان کی نشست خالی قرار دی، لیکن عدالت عظمیٰ نے حکمِ امتناع جاری کردیا، حالانکہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے لی گئی تنخواہیں اور مراعات بھی واپس کریں۔

خلاصہ یہ کہ کتابوں میں درج قوانین غیرجانبدارانہ عدل اور شفافیت کے ضامن نہیں بن سکتے تاوقتیکہ مناصب پر فائز شخصیات مضبوط اور مستحکم عادلانہ انتظامی صلاحیت، قوتِ فیصلہ اور قوتِ نافذہ کے حامل نہ ہوں، ورنہ قرآن وسنّت میں ایک انتہائی خداترس اور متقی انسان بنانے کے سارے احکام موجود ہیں، لیکن جب تک اُن پر عمل نہ کیا جائے، صرف مکتوب احکام نتائج کے حامل نہیں ہوسکتے۔ دعا ہے: ہمارا موجودہ نگراں سیٹ اپ ماضی کی تاریخ دہرانے کے بجائے کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر جائے، بظاہر اس سیٹ اپ پر کوئی نمایاں سیاسی چھاپ نہیں ہے، اسی الزام پر پختون خوا کی کابینہ کو تبدیل کردیا گیا ہے، پس لازم ہے کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیں تاکہ ہمارے مجموعی نظام اور انتخابی نظام پر اعتماد قائم ہوسکے اور انگلی نہ اٹھائی جاسکے۔

ہمارے ہاں بعض قوانین مروّجہ پارلیمانی طریقۂ کار کو نظرانداز کر کے عُجلت میں منظور کیے جاتے ہیں، اس کے پیچھے وقتی مصلحتیں اور عارضی مفادات کار فرما ہوتے ہیں، اس لیے یہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے، بعض اوقات ایسے قوانین آگے چل کر خود قانون سازوں کے گلے کا طوق بن جاتے ہیں، یہ قانون سازی کا معروضی طریقہ نہیں ہے، بعض قوانین کے حوالے سے اس وقت بھی ایسا ہی ہوا ہے۔