یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کی بر ِاعظم ایشاء کے وسیع وعریض خطے میں ہماری معیشت کمزور ترین کہلانے کی مستحق ہے۔ اس معیشت کو جہاں دیگر عوامل نے نقصان پہنچایا ہے، وہاں اسمگلنگ بھی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے، اس کا جواب بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جو لوگ یا مافیا اسمگلنگ کا کاروبار کرتی ہے، اس کی دولت میں اضافے کی شرح غیرمعمولی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ جو اشیاء اسمگل کرتا ہے، اس پر کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ دوسرا سوال کہ اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے ادارے اپنے فرائض آئین اور قانون میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ادا نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں کے افسر ہوں یا اہلکار، انہیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ یہ تنخواہیں اور مراعات اس لیے دی جاتی ہیں کہ جس مقصد کے لیے انہیں بھرتی کیا گیا اور ذمے داری دی گئی، وہ اسے پوری لگن، جرأت اور قانون کے مطابق ادا کریں۔ اسمگلنگ کے دھندے کو روکنا، ان ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے، جنہیں اسی مقصد کے لیے بھرتی کیا گیا اور قوم کے ٹیکسوں سے انہیں تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر افسر اور اہلکار اپنا فرض ادا کریں تو اسمگلنگ بے شک نہ رکے لیکن اس کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ افسر اور اہلکار اس لیے اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں خیانت کرتے ہیں کہ ان کا احتساب کا میکنزم اول تو موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو انتہائی کمزور ہے۔ اگر احتساب کا میکنزم فول پروف ہو تو سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو پتا ہوگا کہ اگر انہوں نے خیانت کی تو احتساب سے بچ نہیں سکیں گے۔ بہرحال نگران وزیراعظم نے اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، اگر وہ اتنے پر ہی عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بھی ان کا کریڈٹ ہوگا۔
پاکستان کی معیشت جس حال میں ہے، اس کی حقیقت نگران حکومت سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ وزارت خزانہ نے ملک کی مالی صورت حال کمزور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے قرضوں کو مالی خطرہ قرار دے دیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ڈی پی گروتھ، مہنگائی، شرح سود، ایکسچینج ریٹ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فی صد تک پہنچ گیا ہے اور یہ مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں جب کہ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز جی ڈی پی کے 9.7 فی صد پر پہنچ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں کے نقصانات بھی مالی خطرات میں شامل ہیں۔ پالیسی اقدامات پر عملدرآمد میں تاخیر بھی مالی خطرات میں شامل ہے۔ پاکستان پر صرف غیرملکی قرضے ہی نہیں ہیں بلکہ ملکی قرضے بھی ہیں۔ یہ ملکی قرضے مختلف حکومتوں نے مختلف مالی اداروں سے لیے ہیں جب کہ بہت سے حکومتی ادارے بھی ملکی بینکوں کے قرض دار ہیں اور ان کا خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیلی ویژن فیس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے)کا مالی بحران بھی سنگین ہوگیا ہے۔ خبر میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی مختلف ائر پورٹس کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیوں کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ مالی بحران کے باعث لیز پر حاصل کیے گئے طیاروں کی ادائیگیاں بھی نہ ہوسکیں۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 112ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہی حال ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز کا ہے۔ پاکستان ریلوے نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، ریل کے کرایوں میں 5 فی صد اضافہ کر دیا، پارسل اور لگیج ریٹ بھی 5فی صد بڑھا دیے گئے، ان اضافوں پر عملدرآمد 2 ستمبر سے ہوگا۔ ملک میں چلنے والی دیگر ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ایل پی جی اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔
محکمہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.4 فی صد تک بڑھی ہے۔ 21 فی صد تک مہنگائی کی شرح سرکاری ہدف ہے لیکن اس ہدف سے کہیں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے باعث دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں خوراک کی مہنگائی 40.6 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ ادھر چینی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت فوڈ سیکورٹی کی پریس ریلیز کے مطابق شوگر ملوں کے پاس 1.815 ملین میٹرک ٹن چینی کے تصدیق شدہ ذخائر موجود ہیں جو نومبر 2023 میں اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز تک 1.8 ملین میٹرک ٹن کی کل ضرورت کے مقابلے میں کافی ہے، مارکیٹ میں چینی کی موجودہ قیمت میں اضافہ، منافع خوری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوا ہے۔ رواں برس جنوری میں چینی کی فی کلو گرام قیمت پچاسی روپے تھی جو ملک کے مختلف حصوں میں بڑھ کر ایک سو ساٹھ روپے فی کلو گرام سے ایک سو نوے روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے۔ ایل پی جی کی فی کلو قیمت 201 روپے 15 پیسے سے بڑھ کر 240 روپے 12 پیسے ہوگئی ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کا پھیلائو کس حد تک ہے۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ چھے برس کے دوران مسلسل سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں یکسوئی کا نہ ہونا، خارجہ پالیسی کی سمت کا درست نہ ہونا، داخلی سطح پر مفادات کا شدید ٹکرائو اور ادارہ جاتی ٹکرائو، معیشت کی بربادی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ ریاست کے بڑے اسٹیک ہولڈرز بدلتے ہوئے عالمی حالات کے مطابق اپنے مفادات کو ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ اس کے بجائے وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں اور اب نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بڑے اسٹیک ہولڈر دو واضح نظریاتی اور مفاداتی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کوئی ایک گروپ بھی اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ تقسیم سیاست اور ریاستی اسٹرکچر کو زوال پزیر بنانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ریاستی نظام اپنا ہی وزن برداشت نہیں کر پا رہا۔ ریاست کی مراعات کے بل بوتے پر پرتعیش زندگی گزارنے والا طبقہ ان حالات میں بھی اپنی مراعات پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کی مالی حالت انتہائی پتلی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں 80 فی صد آبادی صرف 20 فی صد آبادی کی کمائی پر گزراوقات کر رہی ہے۔ اب یہ 20 فی صد طبقہ ریاست کو کتنا ٹیکس دے سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔