بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ۔ وجہ؟

600

بیش تر افراد نے کمال احمد رضوی (مرحوم) عرف ’’الن‘‘ کی پی ٹی وی پر چلنے والی مشہور ڈراما سیریز ’’مسٹر شیطان‘‘ ضرور دیکھی ہوگی۔ اس سیریز میں مسٹر شیطان کا کردار کمال احمد رضوی خود ادا کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے کسی کونے میں بھی لوڈ شیڈنگ کا شاذ شاذ ہی اتفاق ہوا کرتا تھا اور اس کی وجہ ترسیل میں کوئی چھوٹی بڑی خرابی ہوتی تھی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے میں کراچی میں ہونے والا ایک واقعہ سنیں جو اُس وقت کی تاریخ کے مطابق پاکستان میں پہلی بار کسی گورنر ہاؤس کی بجلی کا عین اس وقت چلے جانا تھا جب وہاں پر کسی غیر ملکی وفد کے ساتھ کوئی اہم بات چیت جاری تھی۔ یہ بات 70 اور 80 کے درمیان کی دھائی کی ہے۔ یہ گورنر ہاؤس کراچی کا تھا۔ اندازہ لگائیں کہ بجلی فراہم کرنے اور گورنر ہاؤس کو روشن کرنے کا کوئی بھی متبادل ذریعہ موجود ہی نہیں تھا۔ نہ یو پی ایس، نہ جنریٹرز اور نہ ہی دو تین جگہوں سے الگ الگ کنکشن۔ یہ اس بات پر بھر پور اعتماد تھا کہ شہر کے کسی بھی حصے میں بجلی جائے گی ہی نہیں اور اہم سرکاری عمارتوں میں بجلی جانے کا امکان تو جیسے تھا ہی نہیں کیونکہ حساس عمارتوں میں بجلی کی لائنیں بجلی گھروں سے بلا واسطہ آیا کرتی تھی۔ بجلی جانے کی وجہ ایک کرین کی اپنا بوم اٹھا کر ایسی جگہ سے گزرنے کی غلطی تھی جہاں سے پورے شہر کو ہزاروں واٹ بجلی کی ترسیل ہوا کرتی تھی۔ گوکہ حرکت کرتی ہوئی کرین کا بوم ان تاروں سے آٹھ دس فٹ نیچے تھا لیکن اس کے باوجود بجلی نے اسے کھیچ لیا اور ایک زوردار دھماکے کے بعد ہائی پاور بجلی کی لائین کے تار ٹوٹ کر زمین پر آ گرے۔ بجلی کی ترسیل کے اتنے مثالی دور میں ’’مسٹر‘‘ شیطان نے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو اپنے ایک ڈرامے میں جب یہ مشورہ دیا کہ وہ بھاری تعداد میں چھوٹے بڑے جنریٹر خریدیں تو چند ہی مہینوں میں وہ اتنے امیر کبیر ہو جائیں گے کہ ان پر دنیا رشک کرنے لگے گی۔ بے شک وہ ’’مسٹر شیطان‘‘ کے چیلے ہوا کرتے تھے پھر بھی ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب پورے ملک کے کسی کونے میں بھی بلا سبب کہیں بجلی جاتی ہی نہیں تو بھلا کھربوں روپوں کو جنریٹروں کی خریداری میں پھنسانے کا خسارہ وہ کس طرح پورا کر سکیں گے جس پر مسٹر شیطان نے جواب دیا کہ شاید تمہیں میری شیطانی کھوپڑی پر اعتماد نہیں ہے۔ تم سرمایہ تو لگاؤ، مارکیٹ میں لوگ تمہارے ہاتھ پاؤں جوڑ جوڑ کر جنریٹرز پر جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے اور تم جس داموں ان کو فروخت کرنا چاہو گے کر سکو
گے۔ کیونکہ ہر سرمایہ دار دولت کے انبار پر انبار لگانے کے باوجود اپنے نوٹوں کے ٹیلوں میں اضافہ دیکھنا چاہتا ہے اس لیے شیطان کا چیلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے شیطان کی بات مان لی اور دنیا بھر سے بحری جہاز کے بحری جہاز جنریٹروں کے بھر بھر کے آنے لگے۔ شہروں کے سارے گودام جنریٹروں سے بھر گئے تو چیلوں نے مسٹر شیطان سے کہا کہ شہر بھر میں ایک بھی خریدار نہیں ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں۔ شیطان نے کہا کہ دیکھتے جاؤ کہ تمہارے لائے ہوئے جنریٹرز کیسے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں۔ شیطان ان کے پاس سے اٹھا اور بجلی بنانے والے ادارے اور بجلی پیدا کرنے والی دیگر ایجنسیوں کے پاس گیا اور ان سب کو معقول ترین رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ گھنٹوں کے حساب سے لوڈ شیڈنگ کیا کریں گے۔ پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا زبردست آغاز ہو گیا اور کاروباری حضرات جنریٹروں پر جنریٹر خرید پر مجبور ہو گئے۔
یہ تو محض ایک ڈراما تھا لیکن یقین مانیے، ٹھیک اس کے بعد پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایسا چلا کہ تا حال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مسٹر شیطان میں دکھائے جانے والوں کا انجام تو ’’شیطانوں‘‘ کے حق میں بہت برا ثابت ہوا تھا لیکن اس ڈرامے کو دیکھ کر اصل شیطانوں نے ملک میں وہ غدر مچایا کہ آج تک جنریٹروں اور یو پی ایس فروخت کرنے والوں کے بھاگ ایسے کھلے ہیں کہ راوی ان کے حق میں عیش ہی عیش لکھے جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں یہ خبر بہت عام تھی کہ ملک میں سولر بجلی کو فروغ دیا جائے گا۔ ٹھیک اس کے بعد یہ افواہ بھی گرم ہوئی کہ 16 ماہ کے سابقہ وزیرِ اعظم کے بیٹوں نے ملک میں سولر پینل درآمد کرنے کا پورا منصوبہ بنا لیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب افواہ ہی ہو لیکن جس تیزی کے ساتھ بجلی کے فی یونٹ میں نہایت ظالمانہ اضافہ ہو رہا ہے، ہر فرد اس بات کے لیے مجبور ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کاروبار چلانے اور گھروں کو روشن رکھنے کے لیے سولر توانائی کی جانب جانے پر مجبور ہو جائے۔ کیا یہ سب اشارے مسٹر شیطان والے ڈرامے کی جانب اشارہ کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کیا جس طرح مسٹر شیطان میں دکھائے جانے والے ڈرامے کے بعد ایک ایسے ملک میں جس کے شہر اور گھر راتوں میں بھی تاریک نہیں ہوا کرتے تھے، وہ دن میں بھی بجلی سے محروم ہونے لگے تھے، اسی ڈرامے کو اب حقیقی انداز میں بغیر دکھائے بھی قوم کو نہیں دکھایا جا رہا تاکہ کروڑوں کی تعداد میں درآمد شدہ ڈرائی بیٹریوں اور سولر پینل کو ملک کے چپے چپے میں فروخت کیا جا سکے؟۔ بجلی کے فی یونٹ مہنگے ہوتے جانے میں مجھے تو یہی راز پوشیدہ نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قارئین اسے کس انداز میں لیے ہیں۔