پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاستدانوں کو جھوٹ بولنے کی کھلی چھوٹ ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ عدلیہ ان کی معاونت کرتی ہے، عام انتخابات میں کوئی بھی پارٹی تیس پینتیس فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکی مگر جیتنے والے سیاستدان خود کو بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، حالانکہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ چوبیس کروڑ ہو چکی ہے، غالباً اس معاملہ میں عدالت ِ عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ چند فی صد ووٹ لینے والے سیاستدانوں کو بائیس کروڑ کا نمائندہ کہنے سے روکا جائے کہ یہ بیان 62-63 ایکٹ کے خلاف ہے جواباً عدلیہ نے کہا تھا کہ اگر 62-63 کا اطلاق کیا جائے تو مولانا سراج الحق کے سوا کوئی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا، عدلیہ کا یہ رویہ ملکی مسائل اور مصائب کی جڑ ہے، جھوٹ عام آدمی بولے یا خاص آدمی، جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے اور آئین پاکستان کے تحت قابل تعزیر ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ وطن عزیز میں قانون کا اطلاق صرف عام آدمی پر ہوتا ہے، دیانت داری سے ملکی مسائل اور معیشت کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ خواص کو دی جانے والی سہولتیں اور مراعات ہیں، مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو خواص کی مراعات اور سہولتیں ختم کر دی گئیں جس کے نتیجے میں اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی وہاں ارکان اسمبلی کو ایسی سہولتیں نہیں دی جاتیں جو عام آدمی پر بوجھ بن جائیں۔
بنگلا دیش کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا فرید کے فرزند بہاولپور تشریف لائے تھے ان سے پوچھا گیا کہ بنگلا دیش کے لوگ اپنی غلطی پر پچھتا رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ افواہ کسی احمق کی اڑائی ہوئی ہے مگر ہم احمق نہیں کہ پاکستان سے الحاق کر کے اپنی نسلوں کو تباہ کریں، پاکستان میں عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ ہمارے ملک میں وزیر اعظم اور نائب قاصد کے بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں اور ایک ہی وردی پہنتے ہیں ہم نے غلامی کا طوق اُتار کر پھینک دیا ہے، ہمارے ارکان اسمبلی اور افسران عوام کے خادم ہیں حاکم نہیں، حاکمیت صرف خدا کی ہے اور یہی ہماری پالیسی ہے، ہماری خارجہ پالیسی بھی ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے پیش نظر وضع کی جاتی ہے کہ یہ ایک آفاقی اصول ہے مگر پاکستان کی پالیسیاں امریکا اور آئی ایم ایف کی مرہون منت ہوتی ہیں، ہم خواص کو پٹرول بجلی اور دیگر ضرورت زندگی مفت دیتے ہیں مگر عوام اپنی آمدنی پر ہی گزارہ کرتے ہیں، اگر پاکستان میں بھی پٹرول، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی مفت نہ دی جائیں تو ملک کی معیشت اور عوام کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ عدلیہ اور فوجی قیادت عوام کے مال و جان کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں مگر یہ ادارے بھی چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنی ذمے داری نبھائیں تو عوام بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، مگر عدلیہ اور فوج ان معاملات کو سیاسی کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ معاملہ سیاسی نہیں کرپشن کا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوںکی کرپشن کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا، عدلیہ کے بہت سے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے مگر کوئی ایسا میکنزم ہی نہیں جو غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی فیصلوں کا احتساب کرے، گویا اصل خرابی احتساب نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
حکمران کہتے ہیں کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پستا دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے، حالانکہ ان کی رگوں میں خون نہیں عوام کا پسینہ دوڑتا ہے جو ان کی توانائی کا سبب بنا ہوا ہے۔