اس ملک کی اشرافیہ کو تیزاب ڈال کر آگ لگا دینی چاہیے

630

وہ سیکورٹی گارڈ کی پوری وردی پہنے ہوئے تھا، اور سر جھکائے ایک بورڈ لیے کھڑا تھا، اس پر لکھا تھا کہ زندگی میں پہلی بار سڑک پر مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے ہیں، پہلے تنگی ترشی سے گزرہ ہوجاتا تھا، لیکن اب بجلی کے بل نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، میں نے پوری تحریر نہیں پڑھی، اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی اذیت ہی سے اس کے مسائل واضح تھے۔ ایک سیکورٹی گارڈ کی تنخواہ کیا ہوتی ہے، 15 سے 20 ہزار اس رقم میں گھر چلانا ایک دکھ اور درد کی لامتناہی داستان ہے۔ میری نظروں سے ان دو سگے بھائیوں کی تصویر بھی ہٹائے نہیں ہٹتی، جنہیں غربت، اور بجلی کے بل سے ڈسی ہوئی ماں نے زہر پِلا کر مار دیا۔ یہ المناک سانحہ منڈی بہا الدین کے گاؤں ’’تائب‘‘ کا ہے، جہاں غربت کی ستائی ماں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اس کا شوہر محنت مزدوری کے لیے فیصل آباد تھا۔ بیوی نے شوہر کو فون کیا، ’’توقیر! ایک پنکھا ایک بلب بجلی کا بل دس ہزار روپے آیا ہے، اور واپڈا والے میٹر اْتار کر لے گئے ہیں، اب بچے رات بھر گرمی اور حبس میں بھوکے روتے ہیں، بتاؤ کیا کروں؟ شوہر نے کہا، ’’یہاں کام نہیں ہے اور میں بیروزگار ہوں، کسی سے اْدھار لے لو‘‘ بیوی نے روتے ہوئے کہا ’’کوئی ادھار نہیں دیتا، میں کیا کروں؟‘‘ بعد میں دونوں میں بیوی کے درمیان جھگڑا بڑھا، اور اسی جھگڑے میں بیوی نے تینوں بچوں کو گندم محفوظ بنانے والی زہر کی گولیاں پانی میں ملا کر پلا دیں، ایک بچہ تو اسپتال پہنچ کر بچ گیا، لیکن دونوں بھائی اِس بے حس سماج، بے رحم نظام اور بے فیض حکمرانوں سے فریاد کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے۔

آزادی کی 77 ویں سالگرہ پر قوم پر بجلی کے بل قیامت بن کر ٹوٹے ہیں، کراچی میں کے الیکٹرک نے تباہی پھیر دی ہے، کمپنی دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹ رہی ہے اور عوام کے پاس کچھ نہیں بچا ہے، کے الیکٹرک کی پرائیویٹائزیشن کے بعد لائن لاسز 34.2 فی صد سے کم ہو کر 15.3 فی صد پر آگئے۔ اس عرصے میں اس کا منافع 76 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ کمپنی عوام کو کوئی سہولت دینے پر تیار نہیں ہے، بلکہ مزید بجلی مہنگی کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق بجلی صارفین پر 144 ارب 68 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا منصوبہ ہے، اب سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں قیمت میں اضافے کے لیے نیپرا سے رجوع کیا ہے۔ چند ہفتے قبل بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات روپے تک کا اضافہ کیا گیا جس سے بجلی کی قیمت بشمول ٹیکسز پچاس روپے فی یونٹ ہوگئی ہے۔ عوام پہلے ہی بھاری بلوں کے سبب بلبلا رہے ہیں جبکہ گرمی کے اس موسم میں گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ٹرانسفر خرابی کے علاوہ اوور بلنگ کی شکایات بھی عام ہیں۔ بجلی سے متعلقہ ادارے سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتے جارہے ہیں۔ ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے، کراچی کے تاجر اور عوام، اس میں مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں۔ 55 یا 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے بل کا بوجھ عوام کیسے برداشت کریں گے۔ بجلی فراہمی کے جو معاہدے ہوئے ہیں، اس پر اس وقت نظر ثانی کی نہیں بلکہ ان کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اپنے نظام میں موجود نقائص کو دور کرنا چاہیے۔ عوام کا غصہ اشرفیہ اور ان حکمرانوں کے خلاف بڑھتا جارہا ہے، جو مفت بجلی پٹرول، اور دیگر سہولتوں کے مزے اڑا رہے ہیں، اور بھوکے عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی چوری ختم کر کے، سرکاری حکام اور افسران مفت بجلی گیس پٹرول کی سہولت واپس لے کر نیز وفاقی اور صوبائی وزراء کی تعداد حقیقی ضرورت چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بننے والی بنیادی اشیاء کے نرخ کم کیے جائیں۔

کے ای کے مطابق اس کی ایک پائی بھی ملک سے باہر نہیں گئی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس عرصے کے دوران 4 کھرب 74 ارب وپے کی انوسمنٹ کی گئی آئندہ سات سال کے دوران بجلی کمپنی چار کھرب 84 ارب روپے خرچ کرے گی ان خیالات کا اظہار جمعے کو میڈیا بریفنگ کے دوران ڈائریکٹر کمیو نی کیشن کے الیکٹرک محمد عمران رانا نے فیوچر انوسمنٹ پلان 2030 کی تفصیلات بتاتے ہوئے کیا اس موقع پر دیگر حکام بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ اس وقت کے الیکٹرک 94 فی صد بجلی درآمدی فیول پر بنارہی ہے۔ ہم نے نیپرا کے پاس منظوری اور آئندہ کے لائسنس کے لیے جو پلان جمع کرایا ہے اس کے مطابق ٹارگٹ ہے کہ 2030 تک درآمدی فیول جس میں فرنس آئل اور کوئلہ وغیرہ شامل ہے اس سے بجلی کی پیداوار کم ہو کر 51 فی صد پر آجائے اور بقیہ بجلی شمسی توانائی اور ہائیڈل وغیرہ سے حاصل کی جائے اس۔ کینجھر جھیل پر فلوٹنگ سولر پلانٹ اور خیبر پختون خوا سے ہائیڈل بجلی حاصل کرنا شامل ہے۔

گزشتہ مالی سال میں بڑی صنعتوں کے 10 فی صد کی جو کمی دیکھی گئی، اس میں مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ جیسے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مزید اضافہ مزید صنعتی ابتری کا باعث بنے گا جبکہ محدود معاشی سکت کی وجہ سے عوام اشیاء خور ونوش خرید نے سے عاجز آچکے ہیں 55 یا60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے بل کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اپنے نظام میں موجود نقائص کو دور کر کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور اپنی ناکامیوں کا نزلہ عوام پر گرانے سے گریز کرنا چاہیے۔

عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی چوری ختم کر کے، سرکاری حکام اور افسران مفت بجلی گیس پٹرول کی سہولت واپس لے کر نیز وفاقی اور صوبائی وزراء کی تعداد حقیقی ضرورت چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بننے والی بنیادی اشیاء کے نرخ کم کیے جائیں تاکہ مستقل روک تھام ہو سکے اور عوام کی مشکلات میں حقیقی اور پائیدار کمی واقع ہو۔