پہلے تویہ خبر آئی تھی کہ نگراں وزیراعظم کے حلف اٹھاتے ہی اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 17روپے 50پیسے سے لے کر 20 روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے، پاکستان میں حکومت چاہے منتخب ہو یا نگران، وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے نام پر نرخ بڑھاتی چلی آرہی ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ اور اب جو عوام کو بجلی کے بل موصول ہوئے تو کچھ شہروں سے بل جمع کرانے کا بائیکاٹ کرنے کی خبریں اور کچھ جگہوں سے واپڈا کے میٹر ریڈرز کی پٹائی کی خبریں ہیں۔ یعنی ایک احتجاج کا عالم ہے۔ اصل خدشہ یہ ہے کہ کہیں یہ احتجاج تشدود کا راستہ اختیار نہ کر لے۔ مہنگائی نے اہل پاکستان کو خاص نشانہ بنایا۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی، مقامی قدرتی گیس کی قیمت میں بھی ازحد اضافہ کیا جا چکا۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک، قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصارکرتا ہے، اسی لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے معاہدے کی پابندی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی کمزور قدر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کا سبب ہے۔
ہمارے ملک میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ جیسے ہی بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے، ہر شے کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ ارباب اختیار اور حکومتیں مہنگائی ہونے پر تو صرف اعداد کی جمع تفریق کرتے ہیں اور مہنگائی کے پوشیدہ اثرات کسی کھاتے میں ریکارڈ نہیں ہوتے۔ حکومت جانتی بھی ہے اور اسے باور بھی کرایا جاتا ہے کہ مہنگائی ہونے کے باعث حکومت کے لیے عوامی جذبات کا گراف نیچے چلا جاتا ہے اور عوامی پزیرائی کے بجائے تنقید و دشنام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے تیل کے ذخائر تو زمین و سمندر کی تہہ میں محفوظ ہیں۔ ملکی بدقسمتی ہے کہ یہ ذخائر قدموں تلے ہونے کے باوجود ہماری ان تک رسائی نہیں۔ ادھر عوام کی یہ مجبوری ہے کہ پٹرول ان کی زندگی کو چلانے کے لیے بھی ایندھن کا کام کرتا ہے۔ پٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں وہ پٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہوتے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ بجلی کے بلوں میں وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی قیمت تو صرف ایک مثال ہے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے یا کردی جاتی ہے، جو چیز پٹرول سے دورکی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہوجاتی ہے۔ قیمتیں بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو دھچکا لگے گا بلکہ معاشرت بھی متاثر ہوگی، رویے بھی متاثر ہوں گے، انسانی نفسیات کو بھی زد پہنچے گی اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوگی۔ مہنگائی صرف مہنگائی کو ہی جنم نہیں دیتی بلکہ یہ اپنے ساتھ بہت سے پوشیدہ عوامل بھی لاتی ہے، جو بظاہر نظر نہیں آتے، ان کی گنتی نہیں ہوسکتی، لیکن یہ اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مہنگائی کے بلواسطہ اور بلاواسطہ اثرات سے کہیں زیادہ سنگین اور نقصان دہ ہیں، کسی ضروری شے کی بڑھتی قیمت تو نظر آ جاتی ہے لیکن اس مہنگی قیمت کے پیچھے چھپی گرانی، اخلاقی اقدار کا انحطاط، انسانی رویوں میں ترشی، ذہنی صحت کا بگاڑ، قرابت داری کی معدومیت، خود غرضی، خود پسندی، بد مزاجی، بد لحاظی اور بدکلامی جیسے اثرات بظاہر نظر نہیں آتے لیکن اپنا اثر دکھاتے ہیں اور تو اور یہی مہنگائی معاشرے میں کرپشن اور بد عنوانی کی طرف مائل کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔ جب معیار زندگی تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہو، امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہو، ترقی پانے کے راستے محدود ہوں اور خاندانی ذمے داریوں کا بوجھ آپ کی کمر توڑ رہا ہو تو ایسے میں سیدھے راستے سے پھسلنے کا ہمہ وقت خدشہ موجود رہتا ہے۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگئے ہیں۔ مافیاز نے اشیائے خورونوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کو ناجائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے، جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے، انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اور کبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں، جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پاکستان میں چالیس فی صد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرایع انتہائی محدود ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے سے بھی تجاوز کرگیا ہو تو کیسے معیشت کی بہتری، غربت میں کمی، آمدنیوں اور روزگار میں اضافے، معاشی خوشحالی اور آسودگی کی امید بندھی جا سکتی ہے۔ جس رفتار سے پاکستان معاشی ترقی کر رہا ہے، اس سے مہنگائی کا گراف اور اوپر جائے گا، بڑے پیمانے پر صنعت میں ترقی کی شرح کم ہو جائے گی، زراعت و صنعت دونوں سست روی کا شکار رہیں گے، ٹیکسوں کی وصولی کم اور اخراجات میں اضافہ ہو گا۔
چند روز قبل رخصت ہونے والی اتحادی حکومت سے بھی عوام نے یہ توقعات وابستہ کی تھیں کہ ماضی میں جو زیادتیاں کی جاتی رہیں اور مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو جس طرح بے لگام چھوڑ دیا گیا اس کا ازالہ کیا جائے گا، لیکن لوگوں کے خوابوں کو اُلٹی تعبیر ملی ہے اور مہنگائی پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے لگی ہے جس کی بنیادی وجہ بجلی، پٹرولیم، گیس، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتیں سال میں کئی کئی بار بڑھائی جا رہی ہیں۔ اکثر و بیش تر اس کے لیے آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہی قرضے جن کے حصول کی بات چیت کرتے ہوئے عوام کو بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کی جا رہی ہیں بلکہ اپنی شرائط پر قرضے حاصل کیے جارہے ہیں جو ظاہر ہے غلط بات تھی۔ حکومت بس صرف اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر اپنا ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پورا کر رہی ہے لیکن اس کا اس بات کی جانب ذرہ برار دھیان نہیں ہے کہ ان اقدامات کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان ساری پریشانیوں اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ حالیہ اضافہ فوری طور پر واپس لے بلکہ ممکن ہو تو اس حوالے سے سبسڈی فراہم کرے، تاکہ عام استعمال کی یہ اشیاء عوام کی قوتِ خرید کے اندر رہیں اور اس کی وجہ سے عوامی سطح پر مسائل کے بڑھنے کا جو خدشہ بڑھ رہا ہے، وہ ختم ہو جائے۔