دستور بنیادی قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کسی ملک کا نظامِ حکومت کیسے چلایا جائے گا، تقریباً تمام قوانین دفعہ وار مرتب ہوتے ہیں اور یہ قوانین ایک خاص دستاویز میں درج ہوتے ہیں، جسے دستور کہا جاتا ہے۔ دستور میں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے، اُن کے فرائض اور دائرۂ اختیار کا تعیّن ہوتا ہے، دستور میں عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے، اس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا طریقۂ کار وضع کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارے کو Legislature اور قانون سازی کو Legislation کہا جاتا ہے، جبکہ دستور ساز ادارے کو Constituent Parliament کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں قانون ساز ادارہ دو ایوانوں پر مشتمل ہے: قومی اسمبلی اور سینیٹ، ان دونوں کے مجموعے کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ دستور میں حذف واضافہ، ترمیم اور قانون سازی کا بھی اختیار رکھتی ہے۔ دستوری ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جبکہ قانون سازی کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں موجود ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے، بشرطیکہ اجلاس کے لیے کورم مکمل ہو، Quorum سے مراد ارکانِ پارلیمنٹ کی وہ کم از کم تعداد ہے جو اجلاس کے انعقاد کے لیے درکار ہے، پاکستان میں پارلیمنٹ کا کورم کل تعداد کے پچیس فی صد پر مشتمل ہوتا ہے، اگر تعداد اس سے کم ہے اور نشاندہی پر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کے باوجود تعداد پوری نہ ہو تو اجلاس ملتوی کردیا جاتا ہے۔
دستور دراصل کسی ریاست، ملک اور قوم کا ایک اجماعی میثاق ہوتا ہے، جو سب کے اختیارات کا تعیّن کرتا ہے اور سب کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اگرچہ دستور بھی اپنی اصل ساخت میں ایک قانون ہی ہے، مگر دستور میں قانون سازی کا طریقۂ کار متعین ہوتا ہے اور تمام قوانینِ موضوعہ (Statutes) دستور کے تابع ہوتے ہیں، قانون ساز ادارے دستور کے تحت حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قوانین بناتے ہیں، دستور کو فارسی میں ’’آئین‘‘ کہتے ہیں۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 224 (۱) میں ہے: ’’قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے بعد ساٹھ دن کے اندر نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے، ماسوا اس کے کہ کوئی اسمبلی اپنی مدت کی تکمیل سے پہلے تحلیل کردی گئی ہو، نیز انتخاب کے انعقاد یعنی پولنگ والے دن کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان چودہ دن کے اندر کردیا جائے گا، (منتخب حکومت کے قیام تک) عبوری مدت کے لیے وفاق کی سطح پر صدر اورصوبوں کی سطح پر گورنر کی منظوری سے نگراں وزیر اعظم /وزیرِ اعلیٰ اور کابینہ کا تقرر کیا جائے گا‘‘۔
دستور کے آرٹیکل 224 (۲) میں ہے: ’’جب قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کو اپنی مقررہ مدت کی تکمیل سے پہلے منتخب وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی سفارش پر بالترتیب صدر یا گورنر تحلیل کردیں تواُس دن کے بعد نوّے دن کے اندر متعلقہ اسمبلی کے نئے انتخابات کرانے ہوں گے، انتخابی نتائج کا اعلان پولنگ کے دن کے بعد چودہ دن کے اندر کرنا ہوگا‘‘۔ پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر اور گورنر کو حاصل تھا، اب الیکشن قوانین میں ترمیم کے ذریعے یہ اختیار چیف الیکشن کمشنر کو تفویض کردیا گیا ہے۔
مشترکہ مفادات کی کونسل نے 5اگست 2023ء کو اپنے اجلاس میں اسی سال منعقدہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دیدی تھی اور اُس کی تفصیلات شائع ہوچکی ہیں، اس کی رُو سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمے داری ہے: نئی مردم شماری کے مطابق صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی ازسرِ نو حد بندی کرے، نئی مردم شماری کے تحت صوبوں کے مابین آبادی کے تناسب میں کوئی معتَد بہ تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا قومی اسمبلی میں صوبوں کی نشستیں حسبِ سابق رہیں گی، البتہ صوبوں کے اندر اضلاع میں تبدیلی آئی ہے، صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلی کی حدبندیاں از سرِ نو ہوں گی، اس کے لیے چار ماہ کا اضافی وقت درکار ہے۔ لہٰذا اس کی رُو سے قومی انتخابات کا انعقاد فروری کے وسط سے لے کر آخر تک کسی تاریخ کو ممکن ہے۔
اب یہ دو آئینی اور قانونی تقاضے آپس میں ٹکرارہے ہیں، ایک نوّے دن کی مدت اور دوسرا تقریباً چھے ماہ کی مدت، اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ نوّے دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں اور پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ اس کے لیے تقریباً چھے ماہ کی مدت درکار ہے۔ اب سوال یہ ہے: دستور کا آرٹیکل 51 (5) قرار دیتا ہے: ’’جب آخری مردم شماری کے اعداد وشمار شائع ہوجائیں تو تمام صوبوں کے درمیان آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کی جائے گی اور اُسی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات کا انعقاد ہوگا‘‘، الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 17 (2) میں قرار دیا گیا ہے: ’’ہر نئی مردم شماری کے اعداد وشمار جب شائع ہوجائیں، تو الیکشن کمیشن حلقوں کی از سرِ نو حد بندی کرے گا‘‘۔
آیا آئین کا ایک آرٹیکل دوسرے آرٹیکل پر حاکم ہوسکتا ہے اور اس کے تقاضوں کو معطّل کرسکتا ہے، آئین میں ایسی کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے، سو یہ ہمارے آئینی وقانونی نظام کے اِبہامات اور تضادات میں سے ایک ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1993 میں جب نواز شریف کی حکومت کو معزول کیا تو مسلم لیگ ن اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں چلی گئی، صدر صاحب پر طنز کیے گئے: انہیں Schizophrenia کی نفسیاتی بیماری ہے۔ ایک پٹیشنر دستور کے آرٹیکل نمبر 2 کا سہارا لے کر عدالت عظمیٰ میں گئے: قرآن وسنّت کی رُو سے غلام اسحاق خان صدارت کے اہل نہیں رہے، تو اُس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے ریمارکس دیے: آئین کی دفعات کو ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
ہماری نظر میں ایک فقہی مسئلے میں اس کی رہنمائی موجود ہے: کوئی عورت جب نکاح سے نکل جائے، تو اُس کی عدت کی چار صورتیں ہیں: (۱) اگر اس کو حیض آتا ہے، تو عدت حیض کے تین دورانیے ہیں، (۲) اگر اس کو حیض سرے سے نہیں آتا یا ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے حیض کا سلسلہ بند ہوگیا ہے تو اُس کی عدت تین ماہ ہے، (۳) اگر وہ حاملہ ہے تو اُس کی عدت وضعِ حمل ہے، (۴) اگر اس کا شوہر وفات پاگیا ہے تو عدتِ وفات چار ماہ دس دن ہے۔
اب فرض کیجیے! ایک عورت حاملہ ہے اور اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو اُسے عدتِ وفات بھی گزارنی ہے، پس وضعِ حمل پر وہ عدت سے نکل آئے گی، وضعِ حمل عدتِ وفات سے پہلے بھی ممکن ہے اور عدتِ وفات کے بعد بھی ہوسکتا ہے، تو سوال یہ ہے: کس عدت پر عمل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود کا قول ہے: ’’وضعِ حمل اگر عدتِ وفات سے پہلے ہوجاتا ہے، تو وضعِ حمل ہوتے ہی عورت عدت سے باہر نکل آئے گی اور عدتِ وفات پوری کرنا لازم نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وضع حمل ہوجائے‘‘۔ لیکن اگر وضعِ حمل عدتِ وفات کے بعد ہوتا ہے تو عدتِ وفات پورا ہونے پر وہ عدت سے باہر نہیں آئے گی، سو اگر بالفرض شوہر کی وفات کے دس یا بیس دن یا ایک ماہ بعد بچہ پیدا ہوگیا، تو آیتِ قرآنی کی رُو سے وہ عورت عدت سے باہر آجائے گی، اب اس پر عدتِ وفات مکمل کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح اگر عدتِ وفات تک وضعِ حمل نہ ہو، بلکہ وفات کے پانچ چھے مہینے بعد وضعِ حمل ہو، تو عدتِ وفات کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ وضعِ حمل کا اعتبار ہوگا۔ سیدنا علی کا قول ہے: وضعِ حمل اور وفات کی عدت میں سے جس کی مدت طویل ہوگی، اس پر عمل ہوگا۔ سو یہاں نئی حد بندیوں کی وجہ سے الیکشن کی مدت نوّے دن سے بڑھ رہی ہے، لہٰذا اُسی کے مطابق الیکشن کی تاریخ مقرر کی جائے گی، یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کے لیے چار ماہ درکار ہیں اور اس کے بعد قومی انتخابات کے لیے کم وبیش دو ماہ درکار ہیں اور یہ مدت فروری کے وسط یا اُس کے بعد پوری ہوگی۔
ایسا ہی اِبہام یا تضاد دستور میں قانون سازی کے حوالے سے ہے، دستور کا آرٹیکل (2A) قرار دیتا ہے: ’’قراردادِ مقاصد دستور کا بنیادی اور مؤثر بہ عمل حصہ ہے، قراردادِ مقاصد میں کہا گیا ہے: کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، وہی بلاشرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور اس نے مقررہ حدود کے اندر یہ اختیار امانت کے طور پر اپنے بندوں کو تفویض کیا ہے‘‘، نیز کہا گیا ہے: ’’دستور کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں‘‘۔ اگر پارلیمنٹ میں یہ بحث چل رہی ہو کہ کوئی قانون قرآن وسنّت کے مطابق ہے یا نہیں، تو قومی اسمبلی کے دس غیر مسلم ارکان کو مسلم ارکان کے برابر رائے دینے کا حق ہے، پس کسی وقت توازن اُن کے ہاتھ میں آسکتا ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا: قانون کے قرآن وسنّت کے مطابق ہونے کے بارے میں ان کی رائے کا اعتبارنہ ہو، کیونکہ اُن کا قرآن وسنّت کی حقانیت پر ایمان ہی نہیں ہے، لیکن حقیقی صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
اب سوال یہ ہے: جب پیپلز پارٹی نے مشترکہ مفادات کی کونسل میں 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کو تسلیم کرلیا ہے، تو اب اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں اُسے تردّد کیوں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے: مقتدرہ کو آنے والے قومی انتخابات سے پہلے بعض معاملات کی تکمیل کے لیے وقت درکار تھا اور پیپلز پارٹی اُس سے انحراف نہیں کرسکتی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی گرفت صوبۂ سندھ پر مضبوط ہے، اکثریت حاصل کرنے میں صوبے کے اندر اُس کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ لیکن شاید اُن کے ذہنوں میں کوئی ایسا اندیشہ موجود ہے کہ انتخابات کے انعقاد کی مدت بڑھ جانے کی صورت میں کہیں کوئی ایسی حکمتِ عملی ترتیب نہ دیدی جائے کہ صوبہ ان کی گرفت سے نکل جائے اور وہ اکثریت حاصل نہ کرپائیں۔ پس ہماری دانست میں یہ اندیشہ ہائے دور دراز اُن کے اضطراب کا اصل سبب ہیں، اگر انہیں کہیں سے کوئی یقین دہانی مل جائے کہ صوبۂ سندھ پر ان کے اقتدار کا تسلسل رہے گا، تو شاید تین چار مہینے کا انتظار وہ بخوشی برداشت کرلیں گے۔
دستوری اِبہامات میں سے ایک عدالت عظمیٰ کا تعبیر وتشریح کا اختیارہے، گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63 کے حوالے سے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے اور ایسا فیصلہ کیا ہے جو دستور کو از سرِ نو لکھنے کے مترادف ہے، اسی طرح پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر یہ تاثر دیا ہے کہ اُس کی حیثیت پارلیمنٹ پر فائق ہے، حالانکہ عدالت عظمیٰ پارلیمنٹ ہی کا تشکیل کردہ ایک ادارہ ہے، پارلیمنٹ ہی نے اُس کے اختیارات کا تعیّن کیا ہے، لیکن تخلیق، خالق پر حاکم بن گئی ہے، پس یہ ایک عجوبہ ہے۔