یہ جماعت اب پاکستان کی شدید ضرورت ہے

769

پاکستانیوں کا حالیہ دور سخت اور عجیب بیچارگی کا شکار ہے۔ ملک گونا گوں مسائل میں ہے۔ مہنگائی و غربت کے عفریت نے لوگوں کو ایسا جکڑ رکھا ہے جس کا شکنجہ عوام کے گرد روز بروز سخت سے سخت تر ہو رہا ہے۔ ہر چیز کی قیمت لامحدودیت کی طرز پر بڑھ رہی ہے۔ پریشان حال لوگ اگر ایک رات بڑھتی قیمتوں کے بارے میں متفکرانہ گفتگو کرتے ہوئے سوتے ہیں تو اگلی صبح ان چیزوں کی قیمت اور زیادہ بڑھ چکی ہوتی ہے۔ پاکستانی روپے کی روز بروز تیزی سے گرتی قدر کے مقابلے میں پوری دنیا کی کرنسی اُڑانیں بھر رہی ہے۔ روپے کی کم ہوتی قدر کے مد مقابل نہ آمدنیوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور نہ ہی وسائل بڑھ رہے ہیں۔ غریب غرباء تو دور کی بات اب تو متوسط طبقے کے لیے بھی روٹی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ انتہائی کٹھن مسائل میں جکڑے عوام ان مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک موہوم سی آس لگائے حکمرانوں کی طرف منہ اٹھائے دیکھ رہے ہیں لیکن دوسری جانب حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں بدمست صرف اپنے مفاد کی خاطر جنگ لڑ رہا ہے۔ عوام کے حالات سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کی ترقی اور ان کے مسائل ختم کرنے کے لیے وہ کوئی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ اگر عوام خود سے ملکی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کام کرنا چاہیں تو یہ حکمران طبقہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک بیرون ملک سے آئے پاکستانی کے بارے میں سنا جو بیچارہ اس وقت مختلف بے بنیاد الزامات کی وجہ سے پولیس کی تحویل میں ہے، جب عدالت میں پیشی کے موقع پر اس پاکستانی کی بیٹی باپ کے گلے لگ کر رونا شروع ہو گئی تو اس نے اپنی بیٹی کو تاکید کی ’’بیٹی! میری نصیحت ہے آپ لوگوں کو کہ زندگی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا کبھی نہ سوچنا ورنہ آپ لوگوں کا حال بھی میرے جیسا ہوگا‘‘۔ اس امیر کبیر پاکستانی کی غلطی یہ تھی کہ اس کا دل چاہا تھا اپنی زندگی بھر کی محنت کی کمائی سے اپنے ملک کو بھی فائدہ پہنچائے۔ اس نے اپنا سارا سرمایہ اکٹھا کیا اور پاکستان میں انڈسٹری لگانے کے لیے یہاں آگیا لیکن جب اس نے ایک وزیر کا بغیر کسی خرچ کے حصہ ڈالنے سے انکار کر دیا تو اسی وزیر نے اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا۔ ملکی اقتدار پر مسلط رہنے والے ان بے حس لوگوں کا ہمیشہ یہی منشور رہا ہے کہ ’’نہ خود ملک کے لیے کچھ کرنا ہے اور نہ ہی کسی کو کچھ کرنے دینا ہے‘‘۔

اب بے شک الیکشن کی امید پر نگران حکومت کا قیام عمل پزیر ہو چکا ہے لیکن ملکی اقتدار پر مسلط سیاسی چٹورے جتھے کو اتفاق سے مل بانٹ کر ملک کو نوچنے کا مزہ لگ چکا ہے۔ شاید اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو لگتا نہیں ہے کہ یہ لوگ پی ڈی ایم کا فارمولا چھوڑیں کیونکہ ماضی قریب میں ان کا یہ فارمولا کامیاب رہا۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کی کرپشن کو بے نقاب کرنے والا۔ ذرا ایمانداری کی نظر سے دیکھیں کہ محض قرابت داری کی وجہ سے طفلی انداز میں نوازے جانے والی وزارتوں کے یہ وزراء بھلا حقدار تھے؟ جس جس کو جو جو وزارت دی گئی کیا انہیں متعلقہ محکموں کی بھی کوئی شد بد تھی؟ کیا انہوں نے وزارتیں ملنے کے بعد اپنے اپنے اداروں کی ترقی کے لیے بھی کوئی موثر قدم اٹھایا؟ یا پھر صرف شاہی پروٹوکول کے مزے لیتے ہوئے کبھی کبھار بس فوٹو سیشن کروا لیتے۔ ملکی خزانے پر بوجھ بنے ان شہزادوں کا اپنے لیے راستوں میں ہٹو بچو کروانے کے علاوہ اور کوئی کام بھی نہیں۔ عوام مقتدر رہنے والی تمام پارٹیوں کے سیاست دانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ انہیں ان سے ملکی مفاد کے حق میں کوئی بھلائی نظر نہیں آرہی۔ وہ اس صورتحال میں پریشان ہیں کہ اگر الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو انتخاب کریں تو کس کا کریں۔

اس زمرے میں جب میں نے سیاسی مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا مطالعہ کیا تو موجودہ دور میں مجھے صرف ایک سیاسی جماعت ایسی نظر آئی جس پر ہم پاکستان کی قیادت کے معاملے میں اعتماد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ جماعت اپنے ایک ایک فرد کی اخلاقی تربیت قرآن و سنت کی روشنی میں خود کرتی ہے۔ اسے اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ عدل و انصاف کی سرفرازی اس کا مقصد حیات بناتی ہے۔ تقویٰ کی صفت اپنانے پر زور دیتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس جماعت کا جب بھی کوئی فرد اسمبلی یا پارلیمنٹ میں آیا اس کا کردار کرپشن سے مکمل طور پر پاک رہا کیونکہ یہ جماعت کسی غلطی کرنے والے کو خود ہی کسی منصب کی طرف نہیں آنے دیتی۔ اس جماعت سے تعلق رکھنے والا حکومتی رکن نہ صرف کرپشن سے پاک رہتا ہے بلکہ کام و خدمت بھی بڑھ چڑھ کر کرتا ہے۔ اس لیے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی کردار کشی نہیں کر سکتے۔ اس سیاسی حبس زدہ ماحول میں بھی یہ لوگ تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ اس کے کار بردار خوف خدا سے سرشار ہیں۔ یہ ایک ثقہ، حب الوطن اور نیک نام سیاسی جماعت ہے جس نے ملک کی سیاسی گندگی کو پاک کرنے کا بیڑا اٹھا کر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سیاسی جماعت کا نام جماعت اسلامی ہے۔

26 اگست 1941ء کو بننے والی یہ جماعت ہر سال 26 اگست کو اپنا یوم تاسیس مناتی ہے۔ انتخابات میں شامل ہونے کا لائحہ عمل بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے اپنے کارکنان کو تقریباً 48 سال پہلے عنایت فرمایا۔ ان پانچ عشروں میں جماعت اسلامی نے مقدور بھر کوشش کی کہ فکر مودودی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ماضی میں جماعت اسلامی کے بکثرت امیدوار انتخابی سیاست میں ناکام بھی رہے تو یہ ناکامی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی غاصب و کاذب ثابت نہیں ہوئے۔ ان لوگوں نے کبھی کسی کی جائداد پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی سرکاری بینکوں سے کروڑوں اربوں کے روپے قرضے لے کر جھوٹے دعوؤں پر معاف کروائے ہیں۔ کسی کا مال لوٹا ہے نہ کبھی کسی کی حرمت پامال کی ہے۔ یہ اس لیے ایسا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے فکر مودودی کی گود میں تربیت پائی ہوتی ہے۔ یہ تربیت ہی انہیں یہ بہادری فراہم کرتی ہے جس کی بنا پر جماعت اسلامی کا ایک اکلوتا سینیٹر مشتاق احمد خان اور اکیلا قومی اسمبلی کا رکن مولانا اکبر چترالی پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر اسلامی احکامات کے خلاف ٹکرانے والے قانون کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور مجرم مقتدرین پر سر عام تنقید کرتے ہیں۔ اہل اقتدار کی مخالفتیں سمیٹ لیتے ہیں لیکن اپنے اللہ اور ضمیر کے سامنے سرخرو ہوتے ہیں۔ پاکستانیو! کیوں نہ اس بار ہم بھی اپنا ووٹ جماعت اسلامی کو دے کر جس کا انتخابی نشان ترازو ہے، کم از کم اپنے اللہ اور ضمیر کے سامنے سرخرو ہو جائیں کیونکہ اب پاکستان کے حق میں ہماری امید صرف اسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہے اور یہ جماعت اب پاکستان کی شدید ضرورت ہے۔ اب اس کے علاوہ اور کوئی حل نظر نہیں آرہا۔