چند سبق آموز احادیث وروایات (آخری حصہ)

849

مندرجہ بالا عنوان سے ہم چار قسطیں شائع کرچکے ہیں، یہ پانچویں قسط ہے، اس میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کا ارتکاب کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں لعنت فرمائی گئی ہے، علامہ راغب اصفہانی ’’لَعْن‘‘ کے معنی ومفہوم کے تحت لکھتے ہیں: ’’وہ شخص ملعون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضی اور غضب کے سبب اپنی رحمت سے دور کردیا ہو، ایسا شخص دنیا میں خیر کے کاموں کی توفیق سے محروم اور آخرت میں عقوبت کا سزاوار ہوتا ہے‘‘۔ (المفردات)

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت انس وجنّ، حیوانات وجمادات اور نباتات سمیت ہر ایک کو عام اور شامل ہے، اس لیے کسی بھی معین شخص پر خواہ مسلمان ہو یا کافر، حتیٰ کہ کسی حیوان اور بے جان سواری وغیرہ پر بھی لعنت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ فرعون، قارون، ابولہب اور ابوجہل وغیرہ اُن کافروں پر لعنت کی جاسکتی ہے کہ جن کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے، مگر اسے بھی عادت بنالینا مناسب نہیں ہے، اِسی طرح قابلِ لعنت وملامت وصف کے حامل شخص پر اُس وصف کے حوالے سے لعنت کی جاسکتی ہے، جیسے: جھوٹے پر اللہ کی لعنت، زانی پر اللہ کی لعنت، قرآنِ کریم میں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچانے والوں اور حق کو چھپانے والوں پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔ لعنت کا سبب بننے کے مِن جملہ اسباب میں سے ایک ’’کِتْمَانِ حق (حق کا چھپانا)‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، جبکہ ہم انہیں لوگوں کے لیے کتاب (تورات) میں بیان کرچکے ہیں، تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں، البتہ جن لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح کرلی اور (چھپائے ہوئے احکام کو) ظاہر کردیا تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ میں قبول کرتا ہوں اور میں بہت توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہوں، بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ حالتِ کفر ہی میں مرگئے، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ا نہیں مہلت دی جائے گی‘‘، (البقرہ: 159-162) اس سے معلوم ہوا کہ کتمانِ حق یعنی حق کو چھپانا بڑا گناہ ہے اور ایسے لوگ اللہ، اُس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کے مستحق ہیں۔

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) بعد ازاں کہ آپ کے پاس علمِ (حق) آچکا، اس کے باوجود آپ سے عیسیٰ کے بارے میں جوکٹ حجتی کریں تو آپ انہیں فرمادیں: (اے اہلِ کتاب!) آئو ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں، تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ، پھر ہم سب مل کر تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔ (آل عمران: 61) چونکہ نجران کے نصاریٰ عیسیٰؑ کی بابت اسلامی تعلیمات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ تورات وانجیل میں سیدنا محمد رسول اللہؐ کی بعثت اور عیسیٰؑ کے بندۂ خدا ہونے کے بارے میں بیان کردہ حقائق کا انکار کرتے تھے، اس لیے رسول اللہؐ نے حکمِ خداوندی کے پیشِ نظر اُنہیں دعوت دی کہ ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور مباہلہ کرتے ہیں اور انتہائی تضرّع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیںکہ ہم میں سے جو دین کی حقانیت اور عیسیٰؑ کی بابت دینِ حق کے بیان کردہ حقائق کے معاملے میں اپنے موقف میں جھوٹا ہو، اُس پر اللہ کی لعنت ہو، چونکہ نصاریٰ جانتے تھے کہ ان کا موقف باطل ہے اور یہ لعنت اُنہی کی طرف لوٹے گی، سو اُنہوں نے باہمی مشورے کے بعد اس سے گریز کیا اور جزیہ کی ادائی قبول کرلی، چنانچہ روایت میں ہے: ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے نجران کے نصاریٰ کے وفد کو’مُباہَلہ کے لیے بلایا، رسول اللہؐ سیدنا حسین کو گود میں اٹھائے ہوئے اور سیدنا حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے، سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی ؓ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپ ان سے فرما رہے تھے: جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا، نصاریٰ کے چیف پادری نے کہا: اے نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا کہ اگر وہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے، تو اللہ ان کی دعا کو قبول کرکے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا، سو تم ان سے مُباہَلہ نہ کرو، ورنہ تم ہلاک ہوجائو گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا، پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور مباہلہ کیے بغیر واپس چلے گئے‘‘۔ (المستدرک)

سود سے وابستہ تمام لوگوں پر رسول اللہؐ نے لعنت فرمائی ہے، سیدنا جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاہدے کی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: ان سب پر یکساں حرمت کا اطلاق ہوتا ہے‘‘۔ (مسلم) شراب سے وابستگی رکھنے والوں کی بابت آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے شراب، اس کے پینے والے، اس کے پلانے والے، اس کی خریدو فروخت کرنے والے، اس کو کشید کرنے اور کرانے والے، اس کو اٹھاکر لانے والے اور جس کی طرف اٹھاکر لایا جارہا ہے (سب پر) لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (ابودائود)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس صورت پر پیدا فرمایا ہے، مصنوعی طریقے سے اُسے تبدیل کرنے کو منع فرمایا ہے، قرآنِ کریم نے اسے ’’تغییرِ خَلق‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ؐ نے اُن مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اور اُن جیسا چال چلن اختیار کریں اور اُن عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اور اُن جیسی چال چلن اختیار کریں‘‘، (بخاری) یعنی اللہ تعالیٰ نے بندے کو جس صِنف اور جس صورت میں پیدا فرمایا ہے، انسان کو اُس پر راضی اور شکر گزار رہنا چاہیے، صورتوں کو مخالف جنس میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے، ٹرانس جینڈر ایکٹ میں اسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی کی قانونی طور پر اجازت دی گئی ہے، ایسے قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے ریاستی اور حکومتی عمل داروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔

اِسی طرح رسول اللہؐ نے ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے: (۱) جو شخص حلال جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے، (۲) جو کسی بدعتی کو پناہ دے، (۳) جو اپنے والدین پر لعنت کرے، (۴) جو (کسی کی ملکیتی) زمین (کی حد بندی) کے نشانات تبدیل کرے‘‘۔ (مسلم) زمینوں پر ناحق قبضہ کرنے والوں کی بابت رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظالمانہ طریقے سے لی، تو قیامت کے دن (سزا کے طور پر) اُسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔ (بخاری) محدّثین کرام نے اس کے دو معنی بیان کیے ہیں: (۱) پوری سات زمینوں کا طوق اُس کے گلے میں پہنایا جائے گا، (۲) غصب کردہ زمین کا طوق اُسے پہنایا جائے گا اور پھر سزا کے طور پر سات زمینوں پر گھمایا جائے گا۔ نیز حدیث پاک میں ہے: ’’جس نے زمین کی حدود تبدیل کیں، وہ روزِ قیامت اللہ کی لعنت وغضب میں مبتلا ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کی نفل یا فرض کوئی عبادت قبول نہیں فرمائے گا‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)

اللہ تعالیٰ نے رشتۂ ازدواج کی بابت فرمایا: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تمہیں اُن سے سکون حاصل ہو اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی، بے شک اس میں غورو فکر کرنے والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں‘‘، (الروم: 21) شوہر اور بیوی کے رشتے کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ رشتہ بنایا،

دونوں کے درمیان حقوق وفرائض کا تعلق قائم فرمایا اور دونوں کے ذریعے نسلِ انسانی کی افزائش کا اہتمام فرمایا، لیکن پھر انسان نے اپنی شہوت رانی کی تسکین کے لیے غیر فطری سلسلے اختیار کیے، چنانچہ رسول اللہؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’جو قومِ لوط کا عمل کرے، اُس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘، (السنن الکبریٰ للنسائی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ’’بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو، بلکہ تم تو (حیوانوں کی) حد سے (بھی) تجاوز کرنے والے ہو‘‘، (الاعراف: 80) (۲) ’’کیا تم مَردوں سے غیر فطری فعل کرتے ہو، (مسافروں کا) راستہ کاٹا کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو، تو اُن کی قوم کا جواب صرف یہ تھا: اگر تم سچے ہو تو ہمارے سامنے اللہ کا عذاب لے آئو‘‘۔ (العنکبوت: 29) آج کل ٹرانسجینڈر ایکٹ اور ایل جی بی ٹی پلس گروپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قطعی احکام سے بغاوت ہی کے مترادف ہیں۔

رسول اللہ ؐ اصحابِ رسول پر طعن کرنے اور انہیں برا کہنے سے بھی منع فرمایا ہے اور ایسے لوگوں کو لعنتی قرار دیا ہے، احادیث مبارکہ میں ہے: (۱) ’’سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا کہتے ہیں، تو تم کہو: تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو‘‘، (ترمذی) (۲) نیز فرمایا: ’’میرے اصحاب کو برا نہ کہو، جو میرے اصحاب کو برا کہتا ہے، اُس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘، (المعجم الاوسط) (۳) رسول اللہؐ نے صحابہ ٔ کرام کے اخلاصِ نیت کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے اَصحاب کو برا نہ کہو، اُس ذات کی قسم! جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے، تو وہ اُن کے ایک مُد یا نصف مُد (یعنی چند کلو گرام) کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ابودائود)

ایک مسلمان کا کام دوسرے مسلمان کے لیے راحت ورحمت کا سبب بننا ہے، نہ کہ اذیّت اور آزار کا سبب بنے، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے مومن کو تکلیف پہنچائی یا اُس کے خلاف سازش کی، تو وہ لعنتی ہے‘‘۔ (ترمذی)