کسی اسلامک بینک کے ایک شریعہ ایڈوائزر ایک دفعہ گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون پر باتیں کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے، پولیس والے نے پوچھا چلان کروں یا 500 روپے چائے پانی کا دیں گے، مفتی صاحب نے پولیس والے سے کہا کہ جرمانے کی ضرورت نہیں ہے اور رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہوتے ہیں مگر میں اس کا ایک اسلامی حل نکال سکتا ہوں۔ پولیس والا حیرت سے کھڑا منہ تکتا رہا۔ مفتی صاحب نے اپنی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں تمہیں 500 روپے میں بیچتا ہوں۔ بولو قبول ہے۔ پولیس والے نے مفتی صاحب کو گھور کر دیکھا اور سوچا کہ یہ ہزاروں روپوں کی گھڑی مولوی 500 روپوں میں بیچ رہے ہیں، اس میں فائدہ میرا ہی ہے۔ یہ سوچتے ہی پولیس والے نے فوراً 500 روپے نکال کر مولوی کے ہاتھ میں دیے اور کہا کہ لاؤ دو گھڑی۔ مفتی صاحب مسکرا کر بولے کہ صبر کرو ابھی اسلامی ٹرانزیکشن مکمل نہیں ہوئی۔ اس ٹرانزیکشن میں گھڑی کے مالک اب تم ہو لیکن استعمال کنندہ میں ہی ہوں۔ پولیس والے کا منہ کھلا رہ گیا۔ مفتی صاحب نے جیب سے ایک 1000 روپے کا نوٹ نکال کر پولیس والے کو پکڑایا اور کہنے لگا کہ یہی گھڑی اب میں واپس تم سے خرید رہا ہوں۔ پولیس والے نے پوچھا مفتی صاحب سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے سمجھایا کہ یہ گھڑی میں نے تمہیں 500 روپوں میں بیچ کر 1000 روپے میں واپس خرید لی یعنی عین اسلامی اصولوں کے مطابق حلال خرید و فرخت کا سودا باہمی رضامندی کے ساتھ مکمل کرکے رشوت جیسے حرام کام سے خود بھی بچا اور تم کو بھی بچا لیا۔
یہ تحریر میں نے فیس بک سے نقل کی ہے۔ میں اس پر کوئی اظہارِ خیال کرنے کے بجائے، متعدد مولوی صاحبان کی زبانی سنایا ہوا ایک لطیفہ ضرور سنانا چاہوں گا جو مندجہ بالا تحریر پر کوئی اور تبصرہ شاید ہی اس سے بہتر ممکن ہو۔ ایک جال میں کوا اور کبوتر ایک ساتھ پھنس گئے۔ کبوتر کو تو معلوم تھا کہ یہ جال کسی کا بھی ہو، اب وہ لازماً اسے ذبح کرکے کھائے گا اس لیے زار و قطار روئے جا رہا تھا۔ اس نے ذرا نظر اٹھا کے دیکھا تو اسے کوا بھی آنسو بہاتا اور ہچکیاں لیتا نظر آیا۔ کبوتر نے ذرا دیر اپنا رونا روکتے ہوئے کوے سے کہا کہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ میں حلال پرندہ ہوں اور جس کسی کا بھی یہ جال ہے وہ مجھے ہر صورت میں کاٹ کر کھا جائے گا لیکن تو تو حرام ہے، تو تو رہا کر دیا جائے گا۔ پھر اتنی زور زور سے کیوں روئے جا رہا ہے۔ کوے نے کہا اے بد بخت تجھ کو معلوم نہیں یہ کس کا جال ہے۔ کبوتر پوچھا کس کا ہے، جس پر کوے نے کہا کہ یہ جال مولوی کا ہے، کیا معلوم وہ مجھے حلال قرار دیدے، میں اسی خوف اور ڈر کی وجہ سے رو رہا ہوں۔
بہت سارے معاملات میں مسئلہ ناک پکڑنے کا ہوتا ہے لیکن بحث یہ چھڑ جاتی ہے کہ ناک سامنے سے پکڑی جائے گی یا گدی کے پیچھے سے ہاتھ گھما کے۔ اسی طرح مولویوں یا مفتیوں کا بھی کچھ علم نہیں ہوتا کہ شریعت کی ناک کو موم بنانے کے بعد اسے اپنی مرضی و مفاد کے مطابق کب اور کس وقت موڑ دیں۔ آج سے کافی برس پہلے جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ اور آزاد خبروں کا ذریعہ ہوا ہی نہیں کرتا تھا تو اس پر ایک اسی قسم کے مفتی سے پی ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ جب ہم بینک سے قرضے کی شکل میں کار لیتے ہیں تو خواہ اس کی قیمت بازار میں چند لاکھ روپے ہی کیوں نہ ہو وہ پانچ، دس یا پندہ سال کی ادائیگی کی شکل میں اصل قیمت سے تقریباً 3 گناہ زیادہ رقم ادا کرنے کے بعد آپ کی ذاتی ملکیت میں شمار ہوتی ہے، تو کیا بینک سے جو کار قرضے کی صورت میں لی جاتی ہے، وہ جائز ہے یا ناجائز۔ یہ سن کر مفتی صاحب نے بلا توقف جو فرمایا وہ اوپر بیان کردہ مفتی صاحب کی گھڑی کی خرید و فروخت جیسا ہی معاملہ تھا۔ فرمانے لگے اگر کوئی کار ایک کروڑ کی ہے اور قسطوں میں لینے کے بعد وہ تین یا چار کروڑ کی پڑتی ہے تو بجائے یہ کہ آپ کار کی قیمت ایک کروڑ سمجھیں، تسلیم کر لیں کہ آپ کی کار تین کروڑ روپے ہی کی ہے۔
جس طرح انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں ہر لمحہ ترامیم کی گنجائش رہتی ہے اسی طرح ہر دور کے نامور علما و فقہا علمی کم مائیگی کا شکار نظر آئے ہیں جس کی وجہ سے مفتیانِ دین کے تراشیدہ قوانین ِ شریعہ ہر دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے سانچوں میں ڈھلتے رہے ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذان جائز نہیں، جائز ہوگئی، جمعہ کا خطبہ دیا جا سکتا لیکن جمعہ کی نماز حرام ہے، خطبہ و نماز سب لاؤڈ اسپیکر پر جائز ہو گئے۔ کیمرے کے ذریعے تصاویر کھنچوانا منع ہے، کئی کئی گھنٹوں کی موویاں جس میں فی سیکنڈ درجنوں تصاویر کی عکس بندی ہو جاتی ہے، سیکڑوں چینلوں پر اپ لوڈ کی جانے لگی ہیں۔ یہ سب باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ علما کی واضح اکثریت بہت سارے فیصلے بنا کسی تحقیق صادر فرما دیتے ہیں اور ذرا بھی غور نہیں کرتے اس کا اثر ان کی پیچھے چلنے والوں پر اچھا پڑے گا یا برا۔ اگر مفتیانِ کرام کوئی بھی فتویٰ دینے سے قبل، قانونِ شریعہ کو اپنے سامنے رکھ کر، اس کے ہر پہلو اور نشیب و فراز کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد کوئی فتویٰ جاری یا کوئی حکم صادر کریں تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں عام لوگوں کے دل و دماغ میں شریعت کے احکامات کی غلط تشریح سے پیدا ہو جانے والے بہت سارے ابہام اور الجھنیں جنم ہی نہ لے سکیں اور اسلام دشمن عناصر کو اس بات کا موقع ہی نہ مل سکے کہ وہ شریعت کو مذاق بنا سکیں۔