اب آتے ہیں: ’’پاکستان کی معاشی بحالی کے امکانات‘‘ کی طرف، اس کے بارے میں دعوے کیے جارہے ہیں کہ پاکستان میں سونا، تانبا، کوئلہ، گیس، پٹرول اور دیگر معدنیات کے بیش قیمت ذخائر موجود ہیں، ان کی مالیت کا تخمینہ تین ہزار ارب ڈالر سے آٹھ ہزار ارب ڈالر تک بتایا جارہا ہے، لیکن اس دعوے کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ نواز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں دعویٰ کیا گیا تھا: چنیوٹ میں سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، شہباز شریف نے اُس کی کچھ نمائش بھی کی تھی، لیکن پھر یہ بات قصّۂ پارینہ بن گئی۔ اسی طرح رکوڈک کے ذخائر کے بارے میں بلند بانگ دعوے سنتے رہے ہیں، لیکن اُس کی حقیقت کا بھی ہمیں علم نہیں ہے کہ اُس کی مقدار کا تخمینہ کیا ہے، اُس پر آنے والے اخراجات کتنے ہوں گے اور ملک کو خالص آمدنی کتنی ہوگی۔ حال ہی میں وزیرستان میں کوپر مائننگ کی بات کی گئی ہے، ایک نجی ٹیلی ویژن چینل نے محدود پیمانے پر وہاں مائننگ کا منظر بھی دکھایا ہے، لیکن انجینئر نے بتایا: اب تک ہم پینتیس ملین ڈالر کا تانبا چین کو برآمد کرچکے ہیں، برآمدات کے حوالے سے یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے، نیز یہ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے کہ اس پر اخراجات کتنے آئے ہیں۔ عاجزانہ مشورہ ہے: ان ذخائر سے تمام تر مصارف نکالنے کے بعد ملک کو جو خالص آمدنی ہو، وہ بتانی چاہیے، کیونکہ جب ہم اربوں ڈالرکے دعوے کرتے ہیں، تو اُن علاقوں کے رہنے والے بڑی امیدیں باندھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں: ہمیں کیا ملا، اس سے ایک اور احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے، پس ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے، کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار بہت بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔
پس سوال یہ ہے: اگر امکانات وسیع ہیں، تو ان امکانات کو حقیقت کا روپ دینے میں رکاوٹ کیا ہے، ایسا کیوں نہیں ہوجاتا: جن حساس علاقوں میں معدنیات موجود ہیں، وہاں کی آمدنی کا ایک مُعتَد بِہ حصہ اُس علاقے کے لیے وقف ہو تاکہ مقامی لوگوں کو احساس ہو کہ وہ ان برکات سے فیض یاب ہوں گے اور وہ خود اس کے محافظ بنیں۔ لیکن بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہرچیز پر سرداروں کا کنٹرول ہے، ان تمام چیزوں کا فیض براہِ راست عوام تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔
دنیا میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے سب سے پہلے قابلِ عمل ہونے کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے کہ آیا اس کے لیے مطلوبہ سرمایہ دستیاب ہے، تجارتی اعتبار سے یہ منصوبہ مفید ثابت ہوگا، ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک اس کی پیداوار کی ترسیل کے محفوظ راستے موجود ہیں، اسی کو Feasibility کہتے ہیں، کیونکہ اگر کوئی کہے: ہمالیہ کی چوٹی پر یا سمندر کی تہہ میں ایک ٹن سونا موجود ہے، لیکن اُس تک رسائی، اُسے نکالنے اور مارکیٹ تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کے اسباب موجود نہیں ہیں یا اسباب تو موجود ہیں، مگر اُس کے نکالنے، نقل وحمل وغیرہ کے اخراجات اُس کی قیمت کے مساوی یا قریب تر ہیں، توکہا جائے گا: ’’یہ Feasible یعنی قابلِ عمل نہیں ہے‘‘، پس بہتر ہے کہ کوئی بڑا دعویٰ کرنے سے پہلے ان تمام ذخائر کے قابلِ عمل اور نفع بخش ہونے کی فنی بنیادوں پر مستند رپورٹ تیار کی جائے اور پھر اُس کی جانب ملکی اور عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جائے، محض حسین خوابوں کی تعبیر کبھی الٹ بھی ہوجاتی ہے، جیسے پی ٹی آئی کے دور میں سمندر میں پٹرول کے بہت بڑے ذخائر کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک کی قسمت بدل جائے گی۔
زراعت کے علاوہ ایک اور شعبہ جس کی جانب متوجہ کیا گیا ہے، وہ کیٹل فارمنگ اور ڈیری فارم کا ہے، اگر بڑے پیمانے پر ایسے فارم بنائے جائیں، جن میں دودھ ومکھن حاصل کرنے کے لیے گائیں اور بھینسیں بڑی تعداد میں پالی جائیں، نیز گوشت حاصل کرنے کے لیے گائے، بھیڑ بکریاں وغیرہ بڑے پیمانے پر پالی جائیں اور ان کا گوشت برآمد کیا جائے تو بظاہر یہ قابلِ عمل ہے، لیکن اس کی کامیابی کی شرط یہ ہوگی: سارا ماحول حفظانِ صحت کے عالمی معیارات کے مطابق ہو، مویشیوں کو لاحق ہونے والے امراض اور وبائوں کے سدِّباب کے لیے عالمی معیار کی دوائیں، لیبارٹری، اسپتال اور ڈاکٹر موجود ہوں، اُس کے اردگرد دور دور تک اسپرے کا انتظام ہو، انسپکشن اور ریٹنگ کے عالمی اداروں اور ماہرین سے اس کا معائنہ کرا کے بہترین کارکردگی اور بہترین ماحول کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے اور پھر اُن سے حاصل شدہ گوشت، دودھ اور مکھن وغیرہ کی برانڈنگ کر کے شرقِ اَوسَط اور عالمی سطح پر مارکیٹنگ کی جائے، تو عالمی سطح پر سرمایہ کاروں اور تاجروں کو اس کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح خالص قدرتی شہد کی فارمنگ بھی ہوسکتی ہے، لیکن بہت بڑے پیمانے پر اور بہت جلد ان منصوبوں کے ثمر آور ہونے کے آثار نہیں ہیں، اس کے لیے پختہ ارادہ اور سرمایہ چاہیے، کیونکہ یہ سب کام عارضی بنیادوں پر نہیں ہوسکتے، اس کے لیے ریاست وحکومت کی سطح پر پالیسیوں کے تسلسل کی ٹھوس ضمانت اور سیاسی استحکام کے ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ حکومتوں کی تبدیلی سے اس پالیسی پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، نیز بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے چند بنیادی تقاضے ہوتے ہیں:
(۱) امن کی ضمانت ہو، ہر قسم کی دہشت گردی، ڈاکہ زنی، قتل وغارت، چوری چکاری، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان اور تخریب وفساد کا قَلع قَمع کیا جائے، جہاں بے امنی کے خطرات ہوں، وہاں کوئی سرمایہ کاری کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار کو زمین سے زیادہ سرمائے سے محبت ہوتی ہے، وہ بین الاقوامی شہری اور اڑتا پنچھی ہوتا ہے، اُسے جہاں اپنے سرمائے کے تحفظ اور زیادہ سے زیادہ منافع کی توقع ہو، وہ اُڑ کر وہاں آشیانہ بنالیتا ہے۔ ہمارے کئی سرمایہ دار شرقِ اَوسَط، یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں کاروبار جمائے بیٹھے ہیں، کہا جاتا ہے: دبئی منی لانڈرنگ کا بہت بڑا مرکز ہے، ہمیں یہ معلوم ہونے پر حیرت ہوئی کہ دبئی بھی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے، حالانکہ بظاہر دبئی امریکا اور یورپ کے کسی بھی شہر سے زیادہ ترقی یافتہ ملک لگتا ہے، قانون کی حکمرانی ہے، نظم وضبط مثالی ہے، لیکن ظاہر ہے: یہ کالے دھن کا بھی بہت بڑا مرکز ہے۔
(۲) سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہو، قدرتی آفات کا مسئلہ الگ ہے، لیکن برسرِ زمین حالات سازگار ہوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کو قانون کا پابند بنانا ہوگا، انتظامی اداروں میں اہلیت، قابلیت اور معیار پر تقرریاں کرنی ہوں گی، انہیں قانون کے سامنے جوابدہ بناکر سیاسی اثر رسوخ سے آزاد کرنا ہوگا، (۳) اگر ہم بین الاقوامی سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے ذریعے جدید صنعتوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہوں گے:
(الف) جامع صنعتی قوانین، (ب) ایسے لیبر قوانین، جن میں مزدوروں اور کارکنوں کے حقوق کا تحفظ ہو، لیکن آئے دن ہڑتالیں، لاک ڈائون اور ہنگامہ آرائی نہ ہو،(ج) ہر شعبے کے لیے ہنرمند کارکنوں کی دستیابی، (د) بین الاقوامی معیار پر پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے، (ہ) صنعت کے لیے درکار خام مال کی دستیابی۔
(و) تیار مال کو بندرگاہ تک پہنچانے اور وہاں سے بیرونِ ملک ترسیل کا سریع العمل نظام کہ اس میں بیوروکریسی رکاوٹ نہ ڈال سکے، (ز) مطلوبہ مقدار میں بلاتعطّل توانائی کی دستیابی، عالمی معیار پر کوالٹی کنٹرول، (ح) صنعتی زون میں افسروں، کارکنوں اور اُن کے بچوں کے لیے معیاری اسکول اور اسپتال۔
واضح رہے: چین میں صنعتی ترقی اسی سبب ہوئی ہے، درکار سہولتوں اور بنیادی ڈھانچے کے سبب بڑے بڑے یورپی اور امریکی صنعتی ادارے چین منتقل ہوئے، چنانچہ اب اشیائے صَرف کی عالمی مارکیٹ میں یورپ وامریکا چین سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ بھارت نے اس شعبے میں قدم رکھا ہے، مودی کا دعویٰ ہے: ’’آج ہم دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہیں اور آئندہ پانچ سال میں ہم دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے‘‘۔
(۴) خان صاحب سیاحت کے فروغ کی باتیں کرتے رہے ہیں، لیکن سیاحت کے لیے بھی امن وسلامتی بنیادی ضرورت ہے، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا جدید نظام ہو، ہرجگہ ہوٹل کی سہولتیں ہوں، تربیت یافتہ گائیڈ ہوں، ہمیں دو تین سال پہلے ناران جانے کا اتفاق ہوا، سڑک پر ہوٹل اور دکانیں وغیرہ کثرت سے تھیں، لیکن کوئی بڑا پارک نظر نہیں آیا جس میں فیملی سمیت بچوں کے لیے تفریح کی سہولتیں دستیاب ہوں، سیاحوں کے لیے بعض آزادیاں وہ ہیں جو ہمارے ملک میں میسر نہیں آسکتیں۔
(۵) اگر 1973 کے آئین کو اصل صورت میں بحال کیا جائے تو قومی اسمبلی میں صرف 217 اور سینیٹ میں چالیس نشستیں ہوں گی، خواتین اور اقلیتوں کی محفوظ نشستوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ایک سو بیالیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل بھارت میں آج بھی روزِ اول کی طرح پارلیمنٹ کی نشستیں 650 ہیں، ان میں خواتین یا اقلیتوں کے لیے کوئی محفوظ نشست نہیں ہے، جبکہ چوبیس کروڑ آبادی پر مشتمل پاکستان میں قومی اسمبلی کی نشستیں 342 ہیں، بھارت میں ایک رکنِ پارلیمنٹ تقریباً بائیس لاکھ آبادی کا نمائندہ ہے، اگر پارلیمنٹ کے رکن کو نمائندگی حاصل کرنے کے لیے بائیس لاکھ کی آبادی سے رجوع کرنا پڑے، تو وہ انہیں خرید نہیں سکتا، جبکہ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے، حلقہ بڑا ہونے سے قابلِ انتخاب کا تصور ختم ہوجائے گا اور پارٹی کی اہمیت فرد سے زیادہ ہوجائے گی، کہا جاتا ہے: بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس بائیس کروڑ سے زیادہ ہے، لیکن ان کے لیے ایک بھی مخصوص نشست نہیں ہے، ہم نے سارا نظام ہی بناوٹی اور جعلی بنا رکھا ہے، قومی اسمبلی میں خواتین کی ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں، اس کے باوجود عالمی سطح پر پروپیگنڈا ہے: پاکستان میں خواتین اور اقلیتیں حقوق سے محروم ہیں، پس اس نمائشی اقدام کا کیا فائدہ ہوا۔
(۶) عمران خان کہتے رہے ہیں: اس سے تو مشرف کا دور اچھا تھا، کوئی کہتا ہے: اس سے تو ضیاء الحق کا دور اچھا تھا، جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کہتا تھا: ہم نے پاکستان کو تیس ارب ڈالر سے زیادہ دیے، لیکن ہمیں نتیجہ نہ ملا، کوئی بتائے: اُن اربوں ڈالر سے پاکستان میں کون سے میگا پروجیکٹ بنے، کون سی صنعتی ترقی ہوئی، موٹروے بھی نواز شریف کے دور میں بنے ہیں، خان صاحب اُن کے سخت مخالف تھے، اُن کا کہنا تھا: ’’لوگوں کو سڑکیں نہیں چاہییں‘‘، تب بھی میں نے لکھا تھا: ’’کیا سڑکوں پر جِنّات اور فرشتے چلتے ہیں، انسانوں کو تو سڑکیں چاہییں، آج خان صاحب اُسی موٹروے پر لاہور تا اسلام آباد آمد ورفت کرتے ہیں، ورنہ اگر یہ ساری ٹریفک جی ٹی روڈ پر ہوتی تو لاہور سے اسلام آباد بارہ گھنٹے میں بھی پہنچنا مشکل ہوتا۔ ترقی یافتہ دنیا کو ہم نے دیکھا ہے: ترقی کا پہلا زینہ اور پہلی اینٹ رسل ورسائل کا بنیادی ڈھانچہ ہے، کیا یہ ساری دنیا عقل سے عاری ہے کہ انہوں نے بنیادی ڈھانچے پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔