سندھ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟

847

پی پی پی حکومت کا سندھ میں پندرہ سالہ دور اللہ اللہ کرکے پورا ہوا۔ پرویز مشرف نے یہ بخشش بادشاہوں کی طرح عنایت کی جو کسی سے خوش ہوتے تو فرمان صادر فرماتے کہ تمہیں اتنے دنوں کی مہلت اور کھلی چھوٹ ہے خزانہ سے جتنا اور جو کچھ لے جاسکتے ہو لے جائو، پھر فیض پانے والا کمی نہ کرتا۔ پی پی پی نے کیا سمیٹا وہ اس تحریر میں سمیٹنا مشکل ہے، تاریخ بھی سمیٹنا چاہے تو آسان نہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ لینے کا دینا ہوتا ہے، دیے جانے کی بھی دکھ بھری داستان ہے۔ ہاں یہ کارنامہ جو حکومت سندھ ہی کرسکتی تھی وہ جاتے جاتے کرگئی۔ سندھ میں ایک راگی فن کاروں کا طبقہ ’’ناچو‘‘ ہوتا ہے جو راگ اور ناچ سے پیٹ پالتا ہے، خوشی کی تقریب میں لوگ ان پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں یہ ان کا روزگار عارضی ہوتا تھا۔ ان کے روزگار کا بندوبست 14 ویں گریڈ کی پوسٹ کی صورت میں تعلیم کے شعبے میں 319 کو ملازمت کا سامان کرکے قرض اتار دیا گیا کہ قوم کا مستقبل ناچنے اور گانے کی تربیت حاصل کرکے مست رہے۔ اب رخصتی کے بعد حکومت سندھ میکہ سیاست میں آگئی ہے۔ پی پی پی نے عمر دین عبدالرحمن کے اس قول کو ’’عوام بندہ زر ہوتے ہیں گرہ سے باندھ کر خوب زر جمع کرلیا ہے تاکہ انتخاب ہوں تو ووٹ کی خریداری ہوسکے، پی پی پی کو کھلی چھوٹ تو نہیں دی جاسکتی، ہاتھی تو نہیں بنایا جاسکتا کہ اس کو لگام ہی نہ ہو۔ سو اس کی لگام اس مرتبہ جمعیت علما اسلام کو سندھ میں سپرد کی گئی جو وفاق میں پی پی پی کے ساتھ اتحادی ہے۔ اس سے قبل اندرون سندھ مین پی پی پی مخالف عناصر کا مرکز پیر صاحب پگاڑو ہوا کرتے تھے بڑے پیر صاحب پگاڑو کی حیدرآباد جلسے میں ناپسندیدہ تقریر کے بعد ان کی علالت اور پھر ورثا کی اجازت کے بغیر آپریشن اور رحلت کے بعد ورثا میں گدی کا تنازع اور خلفا کی تبدیلی نے اسٹیبلشمنٹ کی اس مضبوط گدی کو کمزور تر کردیا پھر سندھ میں 2018ء کے انتخاب کے مرحلے میں جی ڈی اے کو اقتدار کی امید دلا کر میدان میں اُتارنے کے بعد جو جھٹ ان کے ساتھ ہوئی اس نے انہیں دلبرداشتہ کردیا ہے۔ اب پھر مرحلہ انتخاب آج نہیں تو کل درپیش ہوگا۔ سو جے ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ملاپ کے ساتھ اندرون سندھ میں جمعیت علما اسلام کو جھنڈا قیادت تھمادیا ہے اور چھوٹی موٹی قوم پرست تنظیمیں اور قیادتوں کا امام قرار دے دیا ہے۔ اب ان کی امامت راشد محمود سومرو کررہے ہیں جو اسلام کے نام پر نبیؐ کے صدقے کے حوالے سے دینی حمیت جگانے اور اقتدار سندھ کی راہ ہموار کرنے میں سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔

ہم تو نہیں کہتے مگر شاعروں کو کون روکے جو کہہ گئے ’’دین ملاں فی سبیل اللہ فساد‘‘ ہمیں تو ڈر صرف اتنا ہے کہ یہ انتخابات کو مسلح جہاد کا درجہ نہ دے دیں اور ایسی انارکی کا بیج بودیں جو انہوں نے مسلکی جہاد میں بو کر مسلمانوں کو کانٹوں پر برہنہ پائوں چلا رکھا ہے۔ ارے بھائی انتخابات کب ہورہے ہیں یہ تو دور پرے کی کہانی ہے، جب تک یہ ’’پانی کی ہانڈی چڑھا کر‘‘ قصہ کہانیاں سنا کر مشغول رکھیں گے اور کتاب حیلہ کی طبع آزمائی کریں گے۔ الحمدللہ ان کے پاس بھی مدارس کا خوب چندہ ہے اور دین، مسلک کے نام کی چاندنی ہے۔ جمعیت علما اسلام کی کارکردگی بتا سکے گی کہ خس کم جہاں پاک، یعنی پی پی پی کا دور ماضی ہوگیا اس بارے میں شکوک اس طرح ہیں کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ امریکا بادشاہ سے اقتدار کی خواہش کی بات رکھی اور مشورہ کیا مگر بات مونڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب بھی صدارت اور فرزند ارجمند کے لیے کے پی کے کی نگراں وزارت اعلیٰ کا سوال کہ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔

پی پی پی نے اپنوں کو خوب نوازا ہے، پندرہ سال میں ہر اپنے حمایتیوں کو گھر میں ایک نوکری کم از کم دی ہے۔ اور کنگلوں کو بنگلوں کا مالک بنادیا ہے۔ مولانا راشد محمود تو ’’وعدہ حور‘‘ کریں گے اور حزب اختلاف کی مندی دور کرکے منڈی میں لائیں گے۔ دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس سکرنڈ میں کہہ گئے تھے کہ اگر فاروقی سیاست ہوگی تو وہ میدان سیاست میں آسکتے ہیں ان کو بھی عندالضرورت ملایا جاسکتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ انہوں نے عمامہ کی رنگت سے آزادی ان کے کہنے پر کی جن کا کہنا اولی الامر کا ہے اور ماننا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے!

جماعت اسلامی سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی میں مولانا جان محمد عباسی کے اغوا سے لے کر حالیہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں میئر شپ کی اغوا کی واردات تک جبرو استبداد کا شکار رہی۔

یوں بھٹو تا زرداری کا دور حکمرانی بڑی آزمائش کا رہا۔ حالیہ 15 سالہ پی پی پی کے دور حکمرانی کی طوالت سے نجات پر جماعت اسلامی نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا جو کوئی غلط نہ تھا۔ کشمور سے کراچی تک یوم تشکر کی تقریبات ہوئیں اور پی پی پی کے سیاہ کارنامے کی بات عوام الناس کے سامنے یاد دہانی کے طور پر دہرائی گئیں اور لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، اندھیر نگری، اداروں کی تباہی، شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی داستانیں سنائی گئیں، مگر کیا یہ سب کچھ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں والی مظلوم عوام وڈیروں کے ظالمانہ تسلط اور پی پی پی کے بھرتی کردہ افسران کے ہتھکنڈوں کے سامنے ضمیر کے فیصلے کے مطابق حق رائے دہی استعمال کرسکے گی۔ سب مل کر اس ’’پی پی پی‘‘ کے گولڈ اینڈ گن کی سیاست کا توڑ کرسکیں گے جس نے خوف اور مال ہوس کی فصل سندھ میں بوئی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت نے زر کا توڑ کرنے اور جماعت اسلامی نے خوف کو کم کرنے میں کسی حد تک البتہ اہم کردار ادا کیا ہے؟