کشمیریوں کا حق مزاحمت اور مضبوط ہوا ہے

812

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ناجائز بھارتی اقدام کو پانچ سال ہوگئے۔ اس اقدام کے بعد بقول کشمیریوں کے کشمیر کی صورت حال مزید بدتر ہوگئی ہے۔ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ارکان کے ایک گروپ ’’فورم آف ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر‘‘ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ’’کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد انتخابات کے انعقاد میں ناکامی نے کشمیریوں کے نکتہ نظر کو مضبوط کیا ہے‘‘۔
اسی گروپ کی ایک رکن ’’داھا کومل‘‘ جو دہلی سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں کہا کہ ’’اگست 2019ء سے پہلے کے مقابلے میں آج کی صورت حال بہت خراب ہے‘‘۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والے بتیس سالہ رئیس احمد کہتے ہیں کہ ’’کشمیر میں ترقی کے ایک نئے دور کا وعدہ کیا گیا تھا ہم نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیںکہ کشمیر میں نوجوان تعلیم یافتہ لوگ اپنا وقار اور اپنی آواز کھوچکے ہیں۔ کشمیر میں ان چار سال کے دوران حکومت نے زمین کے قوانین پاس کیے ہیں تا کہ ہندوستانی شہریوں کے لیے جموں و کشمیر کی زمین کو قابل رسائی بنایا جائے اور وہ کشمیر میں زمین خرید سکیں۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران درجنوں ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن پر کشمیریوں کو شدید تحفظات ہیں۔ ان قوانین میں بھارتی شہریوں کو کشمیر کی شہریت دینا، زمین خریدنے اور نوکریاں کرنے کی اجازت دینا، جنگلات کی اراضی پر سرکاری تعمیرات کرنے کی اجازت دینا، معدنی وسائل کو غیر مقامی افراد کے حوالے کرنا شامل ہے۔ کشمیر کے تمام سیاسی رہنما ان قوانین کو ناقابل قبول قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کو اب فروخت کے لیے رکھ دیا گیا۔ جموں و کشمیر کی اراضی کو اس طرح فروخت کے لیے رکھنا ان آئینی یقین دہانیوں اور معاہدوں سے انحراف ہے جو بھارت کے اور جموں و کشمیر کے درمیان رشتوں کی بنیاد تھے۔
حقیقت میں یہ اقدامات کرنے کا مقصد کشمیریوں کو اپنی زمین اور جائداد سے محروم کرنا ہے۔ آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے جاری ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے کے لیے چالیس لاکھ ڈومیسائل جاری کیے گئے ہیں۔ یہ پالیسی اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری سے مماثلت رکھتی ہے۔ جب 1948ء کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں رہنے کی دعوت دی گئی۔ فلسطین کی زمین پر دنیا بھر کے یہودیوں کی کالونیاں آباد کیں۔
کشمیری ریسرچ اسکالر ڈاکٹر مدثر احمد کہتے ہیں کہ ’’کشمیر میں یکطرفہ فیصلوں اور من مانی کارروائیوں کے ذریعے فلسطین جیسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں‘‘۔ جب کہ کشمیری ان کو قطعی قبول نہیں کرتے۔ کشمیر میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ کشمیر کے لوگ بھارتی حکومت سے سخت متنفر ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی سے بدل کر ہندو اکثریتی خطے میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ووٹر لسٹ میں دس لاکھ ووٹرز کا اضافہ کردیا گیا۔ اس سارے اقدامات کے بعد بھی کشمیری آزادی کے لیے پرامید ہیں۔ وہ پاکستان کی طرف امید سے سیکھتے ہیں اور پاکستان اقوام متحدہ کی طرف۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اگر ان کو انتخاب کا حق دیا جائے تو کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کو ووٹ دے گی۔ لیکن کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے بعد زمینی حالات بدلنے کی بھارتی کوششیں کشمیریوں کو اپنے ہی علاقے میں اجنبی بنانے کی کوشش ہے۔ کشمیر کی آزادی تو پہلے ہی دس لاکھ بھارتی فوجیوں کے زیر تسلط تھی۔ لیکن پھر انہوں نے انٹرنیٹ موبائل فون، اسکول، دفتر بند کرکے گلی گلی مورچے لگا کر پوری آبادی کو قید کرکے ان کی قسمت کے فیصلے کیے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے چار سال کا عرصہ ہوگیا۔ پچھلی سات دہائیوں سے اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کو عالمی برادری نے بار بار مایوس کیا ہے، لیکن اس کے باوجود کشمیری مایوس نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک طرف عدالت سے رجوع کیا ہے۔ حالانکہ چار سال تک سماعت نہ ہوسکی۔ اور اب یہ کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ دوسری طرف وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے عزم اور یقین رکھتے ہیں۔ ان کا حق مزاحمت اور زیادہ اور مضبوط ہوا ہے۔ بھارتی جرائم پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس کے خلاف کارروائی کرنا لازم ہے۔ او آئی سی کو بھی اس کے لیے ٹھوس اقدام پر توجہ دینی ہوگی۔ اس سب کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سفارتی بنیادوں پر کشمیر پالیسی پر توجہ دے اس وقت تو کشمیری عوام میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ پاکستان نے پچھلے چار سال میں جو رویہ اختیار کیا اس نے بھارتی اقدام کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔