ایم ایم عالم کا مجسمہ جلا دیا گیا۔ ہائے

779

مندرجہ ذیل تحریر میں نے فیس بک ’’اردو سعد پوئٹری۔ نصر احمد‘‘ سے نقل کی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں کہ اس میں سچائی کتنی ہے۔ اگر بیان کردہ باتیں حقائق پر مبنی ہیں تو بہت دکھ کی بات ہے کہ محض فوج پر تنقید کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کو جو چاہے سزا دی جا سکتی ہے۔ فوج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے لہٰذا معاشرے میں جتنی بھی اچھائیاں یا کمزوریاں ہیں، جوان و آفیسر اس سے مبرہ نہیں ہو سکتے لہٰذا فرشتے یا پیغمبر نہ بنیں، عام انسان بن کر رہیں، اسی میں دنیا جہان کی بھلائی ہے۔

ایم ایم عالم نے فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کی جو ریکارڈ کرلی گئی۔ جنرل ضیا الحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائر فورس کی تاریخ کے عالمی ریکارڈ کے حامل ایم ایم عالم کو 1982 میں قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا، وہ اس وقت ائر کموڈور تھے، ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں، وہ درویش صفت انسان تھے، دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا، شادی انہوں نے کی نہیں تھی لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے، وہ ایک کمرے تک محدود تھے، کتابیں تھیں، عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں۔ حکومت کوشش کر کے نوجوان افسروں کو ان سے دور رکھتی تھی لیکن اس کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی جوان افسر ان تک پہنچ جاتا تھا تو اس کے کوائف جمع کر لیے جاتے تھے اور بعد ازاں اس پر خصوصی نظر رکھی جاتی تھی چنانچہ نوجوان افسر بھی ان سے پرہیز کرنے لگے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد ائر فورس نے انہیں پنشن اور دیگر مراعات دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا، وہ خود دار انسان تھے، وہ دس دس دن فاقہ کاٹ لیتے تھے لیکن کسی سے شکایت نہیں کرتے تھے۔ کافی مدت بعد ایک ایسا شخص ائر چیف بن گیا جس نے ان کی کمان میں کام کیا تھا۔ اس نے ان کے تمام دوستوں کو درمیان میں ڈالا، دو درجن لوگوں نے ان کی منت کی اور یوں وہ ریٹائرمنٹ کی طویل مدت بعد صرف پنشن لینے پر رضا مند ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم ایم عالم نے ان پر بھی تنقید شروع کر دی، وہ فوج کے سیاسی کردار اور کرپشن کو ملک کی تباہی کا اصل ذمے دار قرار دیتے تھے، وہ کہتے تھے، جنرل مشرف اور ان کے ساتھی کرپٹ بھی ہیں اور یہ ہوس اقتدار کے شکار بھی ہیں، یہ لوگ ملک کو تباہ کر دیں گے، خفیہ ادارے پھر متحرک ہوگئے، ایک بار پھر ان کی گفتگو ٹیپ ہوئی، یہ ٹیپ صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دی گئی۔ صدر نے ائر چیف کو طلب کیا، ٹیپ سنائی اور ان سے کہا، چک لالہ حساس علاقہ ہے، یہ شخص ہماری ناک کے نیچے بیٹھ کر ہمارے خلاف گفتگو کر رہا ہے، اس سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہے، آپ اسے راولپنڈی سے کہیں دور بھجوا دیں، صدر کا حکم تھا چنانچہ ایم ایم عالم صاحب کا سامان باندھا گیا اور انہیں راولپنڈی سے کراچی پہنچا دیا گیا، ان کا اگلا ٹھکانہ فیصل بیس تھا، یہ انتقال تک فیصل بیس میں رہے۔

ایم ایم عالم بے شک غلط ہو سکتے ہیں۔ ایک انسان ہونے کے ناتے یقینا انہوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہوں گی جو قابل گرفت ہوں، جس کی وجہ سے ان کو سزا دینا ضروری سمجھا گیا ہو لیکن اس میں تو کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہماری فوج کا سیاست سے ہی نہیں بلکہ باقائدہ حکومت و اقتدار سے گہرا تعلق ہے جس کا نہ صرف پاکستان کے سارے حلقے اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں بلکہ خود افواجِ پاکستان کے ترجمان تک اعتراف کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بھی سویلین حکومت ٹک کر نہ تو حکومت کر سکی اور نہ ہی عوام کی امنگوں کے مطابق قوانین بنا سکی البتہ یہ ضرور دیکھنے میں آیا کہ بھر پور عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی ایسی حکومتوں کو اقتدار سے باہر ہونا پڑا۔

یہ بات اب پوری دنیا میں الم نشرح ہو چکی ہے کہ جب تک منتخب حکومتیں افواجِ پاکستان کی کمانڈ میں رہتی ہیں اور پالیسی بناتے وقت ان کی مرضی و منشا کو پیش ِ نظر رکھتی ہیں، ان کا کوئی بڑے سے بڑا اور مضبوط سے مضبوط اتحاد بھی بال بیکا نہیں کر سکتا لیکن جونہی کوئی سول حکومت اپنے آئینی و قانونی اختیارات کو سامنے رکھتے ہوئے بلا شرکت ِ غیرے، اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے، اس کے غبارے سے ساری ہوا خارج کردی جاتی ہے۔ جس کی مثال پی پی پی یا ن لیگ کی تین چوتھائی اکثریتی حکومتیں رہی ہوں یا ماضی قریب کی پی ٹی آئی کی حکومت۔ اس لیے یہ بات قرین ِ قیاس لگتی ہے کہ جو کچھ ایم ایم عالم کے متعلق بات سامنے آئی ہے وہ شاید غلط بھی نہ ہو لیکن اگر اس بات کو جھوٹ بھی مان لیا جائے، تب بھی افواجِ پاکستان اس بات سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتیں کہ وہ بہر کیف پاکستان کی سیاست کا جزوِ لا ینفک بن چکی ہیں جبکہ وہ متعدد بار یہ کہتی نظر آئی ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جس ادارے نے بانی پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناحؒ کی بہن تک کو سیاست سے باہر رہنے پر مجبور کر دیا ہو، یہاں تک کہ انہیں بھارتی ایجنٹ تک کا خطاب دیدیا ہو، وہ ادارہ اگر ایم ایم عالم کو اپنے خلاف بولنے پر سزائیں سنا سکتا ہے تو اس میں کسی قسم کے تعجب کی کیا بات ہے۔ اندازہ لگائیں کہ فضائیہ کا اتنا بڑا ہیرو جس کے برابر مشکل ہی سے کوئی اور ہیرو پیدا ہو سکے، جب ان کا انتقال 18 مارچ 2013، کراچی کے پی این ایس شفا میں ہوا تو ان کے سرہانے، ان کی شجاعت کے نغمے گانے والوں میں سے بھی کوئی موجود نہیں تھا مگر ان کے مجسمے کے جل جانے پر مردہ پرست قوم اور اس کے ’’سپوت‘‘ آج تک سوگ میں ہیں۔