!تھر میں معصوم بچوں کی اموات اور حکومتی دعوے

539

سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور اسپتالوں میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے معصوم بچوں کی اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، صرف رواں سال کے 7 ماہ کے دوران 500 سے زائد بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ تھرپارکر سندھ کے میرپورخاص ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے، تھرپارکر کے مشرق میں بھارتی اضلاع بارمیر اور جیسل میر اور مغرب میں ضلع بدین اور جنوب میں رن کچھ کا متنازع علاقہ واقع ہے۔ شمال میں میرپورخاص اور عمرکوٹ کے اضلاع ہیں۔ یہ ضلع سات تعلقوں (تحصیلوں) ڈیپلو، چھاچھرو، مٹھی، ننگر پار، کلوئی، ڈاھلی اور اسلام کوٹ پر مشتمل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تھرپارکر میں جب تواتر سے سیکڑوں نوزائیدہ اور ذرا بڑے بچے ناکافی غذائیت کے سبب ہلاک ہوگئے تو صوبائی حکومت نے یہ عذر پیش کیا کہ یہ سب بدانتظامی اور بروقت اطلاعاتی نظام نہ ہونے سے ہوا لیکن اب ان شااللہ ایسا نہیں ہوگا۔ کھوج یہ لگایا گیا کہ بچوں اور متاثرہ ماؤں کی شرحِ اموات کا بنیادی سبب اسپتال میں سہولتوں کے فقدان کے ساتھ صاف پانی کی قلت، خوراک کی کمی اور ذرائع آمدو رفت کی دشواریوں کے نتیجے میں طبّی سہولتوں کا عام آدمی تک عدم رسائی ہونا ہے۔ چنانچہ اس ایک برس میں تھرپارکر میں صاف پانی کے 400 پلانٹ نصب کیے گئے۔ ان میں روزانہ دس لاکھ گیلن پانی صاف کرنے والا ’ایشیا کا سب سے بڑا‘ ریورس آسموسس پلانٹ بھی شامل تھا۔ اس پلانٹ سے مٹھی شہر اور آس پاس کے تقریباً 100 گوٹھوں کے 75 ہزار مکینوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ اگلے چھے ماہ میں مزید 300 پلانٹ نصب کرنے کا ہدف بنایا گیا۔ اسی طرح روزانہ دو ملین گیلن صاف پانی کے پورے منصوبے پر ساڑھے پانچ ارب روپے لاگت کا اندازہ لگایا گیا۔ مگر پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جس طرح دیگر اداروں کا حال ہے یہی ہوا کہ 400 میں سے 100 کے لگ بھگ پلانٹ کچھ عرصہ چلنے کے بعد ناکارہ پڑے ہیں کیونکہ مینٹیننس کا مسئلہ ہے۔ ستم بالا ئے ستم یہ کہ جس طرح ٹائروں کے بغیر مال خانے میں کھڑی ناکارہ گاڑیوں کے پٹرول بل بنتے رہے بالکل اسی طرح تھر میں صاف پانی کے لیے لگائے گئے پلانٹ تو بند ہیں مگر ڈیزل ودیگر اخراجات کے بل بنائے جارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آلودہ پانی اور ناقص خوراک کی وجہ سے سندھ کی 20فی صد آبادی ہیپاٹائیٹس میں مبتلا ہوچکی ہے۔

صوبہ سندھ کی طرح تھرپارکر بھی کارونجھر جبل (پہاڑ)، کوئلہ سمیت قدرتی معدنیاتی دولت سے مالا مال ضلع ہے۔ تھرکول فیلڈ سے پیدا ہونے والی بجلی ملک میں بجلی کی پیداوار کی سب سے کم لاگت کی پیدا شدہ بجلی ہے، تحصیل مقام اسلام کوٹ کے قریب واقع تھرکول فیلڈ سے کوئلہ کی سالانہ پیداوار 15.51 ٹن ہے جوکہ 19ملین ٹن تک بڑھائی جاسکتی ہے، مگر مخلص قیادت کے فقدان اور حکومتی خراب

کارکردگی کی وجہ سے پورے سندھ کی طرح تھرپارکر کے عوام بھی بھوک غربت اور افلاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ 06ماہ کے دوران تھرپارکر میں 70سے زائد افراد بھوک وافلاس کی وجہ سے خودکشی کرچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ مایوس افراد نے مع بچوں کے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھایا۔ روشن تھر کے نعرے کے تحت پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے دعویٰ کیا تھاکہ اب تھرکو روشن بجلی تعلیم وصحت کی سہولتیں اور روزگار وخوشحالی دیں گے۔ مگر حکومتی دعوئوں کے برعکس آج بھی بھوک وافلاس کے ڈیرے اور تھر میں غربت ناچ رہی ہے۔ سندھ میں پندرہ سال سے برسر اقتدار پارٹی نے تھری عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا تو کجا تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر میں قائم تھرکی پہچان خوبصورت کارونجھر جبل کے قیمتی پتھر کو بھی فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بہرحال حکومتی غفلت، اداروں کی ناکامی اور غربت ومفلسی سے بڑے پیمانے پر بچوں کی اموات قابل تشویش ناک بات ہے۔ سندھ حکومت گزشتہ 15 سال سے مسلسل سندھ پر حکمرانی کے باوجود تھرپارکر کے عوام کی محرومیاں ختم نہیں کرسکی ہے، عوام کے لیے پینے کے صاف پانی، مفت گندم اور علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، حکومتی جماعت کے تمام تر دعووں اور نعروں کے باوجود آج بھی تھر میں بھوک افلاس سے جڑی ماؤں کے بچوں کی اموات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، کم وبیش 18 لاکھ آبادی پر مشتمل صحرائے تھر کے باسیوں کی مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ مناسب خوراک کا نہ ہونا، اسپتالوں میں ادویات اور ڈاکٹروں کی کمی بتایا جارہا ہے، تھرپارکر کے عوام نے بارہا پیپلزپارٹی سے وابستہ امیدواروں کو ووٹ دیکر ایوانوں تک پہنچایا ہے مگر وہاں کے منتخب نمائندوں نے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح اور اپنے محلات بنانے کے لیے ہی کوششیں کیں ہیں۔ تھرپارکر کے معصوم بچوں کی اموات کی ذمے داری حکمران جماعت اور منتخب نمائندوں پر عائد ہوتی ہے جن کے اپنے بچے تو دبئی اور لندن سے علاج اور عیاشیاں کرنے میں مصروف ہیں لیکن تھرپارکر کے عوام آج بھی پتھر کے دور میں جی رہے ہیں جنہیں صاف پانی، صحت، روزگار اور تعلیم سمیت تمام بنیادی انسانی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی سندھ نے تھر کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑا ہے مرد درویش مولانا یوسف آفندی سے لیکر سابق صوبائی نائب امیرو سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان کی قیادت میں تھرکے عوام کی دادرسی ودلجوئی کی ہے۔ تھر کے عوام کے لیے چونرا اسکول سسٹم، کنووں کی کھدائی اور راشن جبکہ ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں کروڑوں روپے کی لاگت سے قائم الخدمت اسپتال اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت اسلامی ہی دراصل تھرپاکر کے عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کی حقیقی مسیحا جماعت ہے جو بغیر کسی ووٹ کی لالچ کے ان کی ہر دور میں خدمت کرتی رہی ہے۔

کارونجھر جبل: چند دنوں سے سندھ حکومت کی جانب سے تھرپارکر کے تاریخی پہاڑی سلسلے کارونجھر کی کٹائی اور قیمتی پتھر بیچنے کا اشتہار جاری اور عوامی ردعمل آنے کے بعد رد کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جماعت اسلامی سندھ نے بھی اپنا ردعمل دیتے ہوئے حکومتی اقدام کی مذمت اور کہا کہ خوبصورت تھرپارکرکے پہاڑی سلسلے ’کارونجھر‘ کو بیچنے کے لیے بولی لگانے کا مطلب گھر کے آنگن میں آگ لگانے کے مترادف ہے۔ سندھ کے حکمرانوں کو بھوک، علاج کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے روزانہ مرتے ہوئے نوزائیدہ بچے، درختوں میں لٹکتی ہوئی خواتین کی لاشیں اور کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے والے نوجوانوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں، یہ لوگ شہروں کے بنگلوں میں تھر کے بچے دیکھنے سے قاصر ہیں، انہیں بس کارونجھر اور کوئلہ نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی سندھ کے وسائل کی لوٹ مار کی ہر فورم پر مزاحمت کرے گی، صوبائی جنرل سیکرٹری کاشف سعید شیخ کا مزید کہنا تھاکہ سندھ کے خلاف ہر سازش کے پیچھے پیپلز پارٹی اور زرداری ہیں۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کے خلاف ایک بڑی تحریک کی ضرورت ہے۔ کارونجھر چار ارب سال قدیم پہاڑ ہے جو کہ عالم انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے اس کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کیا جائے، کارونجھر کو نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے اس کے تحفظ کے لیے سندھ اسمبلی سے بل منظور کیا جائے۔ کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں بنے 40 ڈیموں سے ننگرپارکر میں گزشتہ سال 2 ارب سے زائد کی فصلیں تیار ہوئیں۔ یہ لوگ پہاڑ ختم کرکے سب کچھ ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ڈیموں کے پانی کا ذریعہ یہی پہاڑ ہیں جب پہاڑ نہیں رہیں گے تو پانی بھی نہیں آئے پھر کاشت بھی نہیں ہوں گی، کارونجھر کا قیمتی پتھر بیچنے کا اشتہار جاری کرنے کا مطلب ہے کہ سندھ کے حکمران ٹولے نے یہ طے کرلیا ہے کہ سندھ کی خوبصورتی کو برباد کرنا ہے خدارا طاقت کے نشے میں ایسی حرکتیں نہ کریں ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ چند بڑے لوگ پیسے کی خاطر سندھ کے عوام سے تمام تر سہولتیں چھین لینے، غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے بعد اب قدرتی حسن کے تاریخی مقامات بھی چھین لینا چاہتی ہے اور اْن کی سہولت کاری سندھ حکومت کا محکمہ مائینز اینڈ منرل کر رہا ہے جسے سندھ کے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی سندھ تھرپارکر سمیت سندھ کے عوام کو یقین دلاتی ہے کہ اپنے وسائل اور حقوق کے لیے ہم ہر فورم پر عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوںگے اور حکمرانوں کے عوام دشمن فیصلوں کی مزاحمت کریں گے۔