ماہ اگست آزادی پاکستان کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں ہی اُن حکمرانوں سے نجات ہوگی جنہوں نے مہنگائی کے دکھ قوم کو دیے اور اپنے لیے نیب کے قوانین میں ترامیم کرکے سکھ سمیٹے۔ یوم آزادی سے قبل ان سے قوم آزاد ہوگی اور ان کے آزار سے جان چھوٹے گی، جان کنی اقتدار کے عالم میں ان کے فیصلے اور قوانین میں ترامیم، آئین میں ردوبدل یہ بتانے کو کافی ہے کہ اقتدار کی خاطر یوں یہ دوسرے کے رحم و کرم پر ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ انتخاب آئین کے تحت مقررہ وقت پر ہوں گے یا بقول شخصے بگڑتے ہوئے حالات کے بہانے لپیٹ کر کونے کھدرے میں رکھ دیے جائیں گے، زیادہ تر امکان یہ ہے کہ جس طرح کے اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں التوا کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں، خواب کی دنیا میں رہنے والے پی پی پی مشیر زراعت منظور وسان نے زرعی انقلاب کا منصوبہ دیکھ کر ہوا کے رُخ کا اندازہ کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ عام انتخاب ملتوی ہوجائیں گے۔ امکان ہے کہ نگراں سیٹ اپ تین ماہ سے دو سال تک چلے۔ حکومت کے نگران وزیراعظم و وزیراعلیٰ غیر سیاسی ہوں گے، حکمراں پارٹی کے رہنما منظور وسان کے ساتھ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض احمد خان نے بھی کہا ہے کہ اگر نومبر میں انتخاب نہ ہوئے تو مجھے دو سال تک انتخاب نظر نہیں آرہے ہیں اور ملک کی معیشت کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کی طرف لے جایا جائے گا اور جب تک معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے مجھے الیکشن نظر نہیں آتے۔
چیف آف آرمی جنرل عاصم منیر کے بیانات بھی اشارہ کررہے ہیں کہ دال میں کالا ہے، اس ہی کا اندازہ کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بیان دینا ضروری سمجھا کہ حالات کی خرابی یا نگراں سیٹ اپ کی توسیع کا جواز بنا کر انتخاب کا التوا برداشت نہیں، صاف اور شفاف انتخاب کا انعقاد ہی مسائل کا حل ہے، نگراں وزیراعظم کے طور پر اسحاق ڈار کے نام سے دستبرداری یہ بتانے کو کافی ہے کہ باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور پیا جس کو چاہے گی وہی سہاگن کہلائے گی۔ اب تک اس چاہت کی سہاگن نے ملک اور قوم کی لٹیا ڈبو دی ہے۔ نگراں حکومت کا خاکہ بنگلادیش میں ماہرین کی دو سالہ حکومت کا بلیو پرنٹ بتایا جاتا ہے، وہاں بھی ابتری کا حل ماہرین کو حکمراں بنا کر کامیابی کے ساتھ نکالا گیا۔ رہا انتخاب کا معاملہ کراچی میں سب نے دیکھ لیا کہ کیسے میئر پی پی پی نے بنایا اور ایسے ہی مروجہ انتخاب کا طریقہ ہے۔ پی پی پی نے بھی دو سال تک حکومت نہ آنے کی بُو سونگھ کر بلدیاتی اداروں میں انتخاب کراکر تقریباً پورے سندھ کے بلدیاتی اداروں کی چیئرمین شپ کی باگ ہاتھ میں لے لی ہے اور اب میئر، ڈپٹی میئر کی تنخواہ میں 100 فی صد اضافہ کی تیاریاں ہیں۔ کچھ لوگ پُرامید ہیں کہ آئین میں ماہرین کی حکومت کی گنجائش نہیں مگر وہ بھولے افراد بھول گئے کہ جنرل ضیا الحق نے آئین پر کیا تبصرہ کیا اور پرویز مشرف کے کو کو کیسے عدالت نے مانگے سے زیادہ مراعات دے دی۔ اب بھی معاشی بحران کے نام پر اقتصادی ہنگامی حالت کا اعلان کرکے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ کچھ ستمبر کے بعد ہوگا جب کچھ گلوخلاصی ہوگی۔ اب سبز انقلاب کا نعرہ لگا ہے۔ دفینہ نکالنے اور ملک سنوارنے کی بات چل پڑی ہے، لگے ہاتھ احتساب کا ڈراوا بھی ہوگا۔
آصف زرداری جو جنوبی پنجاب، کے پی کے، اور بلوچستان میں بااثر لیڈروں کو پی پی پی میں سمونے کے لیے کوشاں تھے ناکام ٹھیرے۔ عبدالقدوس بزنجو بھی ہاتھ سے نکل گئے۔ تحریک انصاف کے پرندے پی پی پی کے مچان کے بجائے استحکام پاکستان پارٹی کے چشمہ پر جا اُترے۔ آصف زرداری فرما چکے تھے کہ جب ہم چاہیں گے انتخاب ہوں گے تو اس ناکامی کے بعد وہ کب چاہیں گے کہ مزید ناکامی کا داغ لگے۔ محمد نواز شریف کی ملک واپسی کا گرین سگنل نہیں مل رہا ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کے ٹپکے کا ڈر ہے۔ تو بھلا پھر ماہرین کی حکومت ہی پر اکتفا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول نے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا تو اس اشارتی پارٹی نے التوا کا اشارہ کردیا اب وزیراعظم شہباز شریف نے بھی فرما دیا کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے، اس کا مطلب کہ نئی متنازع مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں ہوں گی جن کے لیے الیکشن کمیشن کے مطابق کم از کم پانچ ماہ درکار ہوں گے۔ پھر شیڈول دیا جاسکے گا تب تک مزید التوا کی کوئی اور وجہ گھڑ کر سامنے لائی جائے گی اور پھر قانون کے جادوگر حضرات ایسا منتر پڑھیں گے کہ وہ ادارے جو آئین و قانون کے پاسدار ہیں وہ دم بخود ہوجائیں گے۔ زرعی انقلاب کے نام پر قوم کو ہرا ہی ہرا دکھایا جائے گا۔ رہے انتخابات تو اب ہونے سے رہے یہ ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہی، ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی حواس باختہ کررکھا ہے۔