نومبر 2022 میں حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاکستان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 12جولائی کو بلوچستان کے شہر ژوب میں آرمی گیریژن پر حملہ ہوا، جس میں نو فوجی شہید ہوئے۔ اسی دن سوئی میں ایک حملے میں مزید تین فوجی شہید ہوئے۔ ان واقعات کے بعد ایک بار پھر پاکستان نے کابل میں طالبان حکام کو کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کے نتائج پر متنبہ کیا۔ پاکستانی فوج اور حکومتی رہنماؤں نے انتہائی سخت الفاظ میںاپنے بیانات میں کابل سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنا دائرۂ کا خیبر پختون خوا کے بعد بلوچستان میں پھیلا دیا۔
گزشتہ ہفتے پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہوں اور وہاں سے پاکستان پر حملوں کی آزادی پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کوئٹہ کے دورے میں بیان دیا جس میں افغان عبوری حکومت سے دوحا امن معاہدے (2020 ) میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حملے جاری رہے تو ملک کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ’’موثر جواب‘‘ دیا جائے گا۔ گزشتہ پیر کو کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو پاکستان کی سلامتی کو متاثر کرنے والی بڑی وجوہات کے طور پر نوٹ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمدآصف نے بھی کابل پر اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ ’’افغانستان نہ تو پڑوسی ملک کے طور پر اپنی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے اور نہ ہی دوحا معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر پناہ ملتی ہے‘‘۔ اْنہوں نے خبردار کیا کہ ’’پاکستان جواب میں تمام ممکنہ وسائل اور اقدامات بروئے کار لائے گا‘‘۔
مئی 2023ء میں وفاقی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کابل انتظامیہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں اس کے دوبارہ منظم ہونے سے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹوں کے مطابق بھی ’’طالبان کے کابل پر کنٹرول کا افغانستان میں سب سے زیادہ فائدہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اْٹھایا ہے‘‘۔
بلاشبہ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان قلیل مدتی جنگ بندی ایک ناکام کوشش تھی۔ لیکن اس کے بعدکالعدم ٹی ٹی پی نے سب سے بڑا خودکش حملہ دسمبر 2022ء میں پولیس لائنز پشاور کی ایک مسجد پر کیا جس میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس واقعہ نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنانچہ پاکستان حکومت نے طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کیے اور سخت وارننگ جاری کی گئی۔ ان مذاکرات میں طالبان رہنماؤں نے پہلی مرتبہ اپنے ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کو تسلیم کیا اور حملے روکنے کے لیے یقین دہانیاں کرائیں لیکن اْس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس کے بعد فروری 2023ء میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ کابل بھیجا تاکہ طالبان حکومت کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کے حملوں پر پاکستان پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتائج سے آگاہ کرنا اور کالعدم ٹی ٹی پی کو لگام ڈالنے اور اس کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے کابل انتظامیہ پر زور دینا تھا لیکن ان مذاکرات میں اْلٹا طالبان حکومت نے حکومت پاکستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے پانچ ہزار جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کوغیر مسلح کرنے اور ان کی دوبارہ آباد کاری کے لیے مالی امداد کی درخواست کردی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مطالبات بھی پیش کر دیے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں سے فوجی دستوں کا انخلا کرے، فاٹا کے خیبر پختون خوا میں ادغام کا فیصلہ واپس لے اور خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں شریعت کا نفاذ کرے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگر افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرنا چاہیے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی مستقل حل نہیں کیونکہ جوابی کارروائیوں میں خطرات اور خرابیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی پالیسی مرتب کرنا چاہیے جس میں کئی ترغیبات بھی شامل ہوں تاکہ افغان طالبان رہنماؤں کو قائل اور متحرک کیا جاسکے اگرچہ سب شراکت داروں کے مفادات مختلف النوع ہیں۔ لیکن چین، روس، ایران، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ مل کر ایک مربوط علاقائی سلامتی کے لیے حکمت عملی بھی تیار کرنی چاہیے تاکہ کابل پر اجتماعی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے لیے امن، سلامتی اور ترقی ضروری ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہم آہنگی ہے اس لیے سہ فریقی (پاکستان، چین اور افغانستان) مذاکرات بھی جاری رہنے چاہییں۔
پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی پر نظرثانی کی بھی ضرورت ہے۔ تعاون اور عدم تعاون کی قیمت بڑھانے پر ضرور غور کیا جانا چاہیے لیکن دونوں ملکوں کی سلامتی اور معاشی مفادات کو زیادہ موثر طریقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی سمیت تمام پاکستان کی سیاسی جماعتیں حکومت ِ پاکستان اور امارتِ اسلامی افغانستان پر زور دیں کہ وہ پْرامن بقائے باہمی، اسلامی اخوت وبھائی چارے اور اقتصادی وعلاقائی مفادات کی خاطر نرم لب و لہجہ اختیار کریں اور افہام و تفہیم کے ساتھ علاقائی سلامتی اور اَمن کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ بات چیت کے مواقع پیدا کریں۔