نصف شب کے قریب اچانک ہی سے شدید ترین بارش برسنا شروع ہوگئی جو لگ بھگ دو گھنٹے متواتر پورے زور و شور کے ساتھ برستی رہی۔ مجھے گزشتہ بارش جو سال 2022ء کے ماہ ستمبر میں ہوئی تھی وہ یاد آگئی۔ اس شدید بارش کے ہونے والے سلسلے نے جو لگاتار 60 گھنٹوں پر محیط تھا اور جس نے ملک بھر خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایسی تلخ اور الم ناک یادیں چھوڑی تھیں جنہیں عوام اور متاثرین بارش اور سیلاب آج تک بھی فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ ان بارشوں سے رہا سہا انفرا اسٹرکچر ہی تباہ نہیں ہوا بلکہ لاکھوں افراد بے گھر اور سیکڑوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاکھوں ایکڑ پر محیط کھڑی فصلوں کو جو نقصان پہنچا وہ اس پر مستزاد تھا۔ ابھی گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ پہلے تک سندھی اخبارات اور سوشل، الیکٹرونک میڈیا پر ان معصوم اور کمسن بچوں کی رنجیدہ کردینے والی خبریں سامنے آتی رہی ہیں جو اپنے اپنے گوٹھ کے قریب جمع ہوجانے والے بارش کے پانی سے بننے والے گڑھوں اور تالابوں میں گرنے اور پھر ڈوب جانے سے لقمہ اجل بن گئے۔ بلاشبہ ایسی معصوم کلیوں کی کل تعداد بھی درجنوں میں ہوچکی ہوگی۔ ان متاثرین بارش اور سیلاب کا تو مذکور ہی گیا جو شدید بارش کی بنا پر ہمشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گوٹھوں اور گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے کیوں کہ جو گھر بارش کی وجہ سے گر گئے تھے ان کی تعمیر ومرمت ان کے بس میں نہیں تھی۔ گزشتہ برس ان بارشوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کرڈالا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان متاثرین بارش اور سیلاب کی ایک قابل ذکر تعداد ابھی تک پریشان حال ہے اور خود کو سنبھال نہیں پائی ہے۔ ایسے میں ہونے والی شدید بارش سے میرا پریشان ہونا اور گھبرا جانا عین فطری تھا۔ باہر متواتر شدید بارش ہورہی تھی اور اندر کمرے میں بیٹھا راقم الحروف لگ بھگ دو صدی پیش تر کے اس تنگ مزاج، خود پسند اور انا پرست مگر بے مثال شاعر میر تقی میر کی ایک غزل کے ان اشعار پر غور کررہا تھا جو نامعلوم کیوں اس موقع پر ذہن کے دروازے پر دستک دے بیٹھے تھے۔
مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی
سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
میں سوچنے لگا کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ نے بھی متاثرین بارش اور سیلاب کے ساتھ بعینہ سلوک اور تجاہل عارفانہ روا رکھا ہے جس کی شکایت میر نے اپنے مذکورہ اشعار میں کی ہے۔ ہاں اگر کچھ کیا ہے، بلکہ بہت کچھ کیا ہے تو وہ الخدمت فائونڈیشن پاکستان ہے جس نے لاکھوں متاثرین بارش کو راشن، علاج اور خیموں کی سہولت ہی فراہم نہیں کیں بلکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں انہیں گھر بھی تعمیر کراکے دیے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اتنے شان دار اور یادگار تاریخی کارنامے کی اہل الخدمت اور اہل جماعت خاطر خواہ تشہیر نہیں کرپائے ہیں۔ اس دوران پی پی پی کی سندھ حکومت کے ذمے داران اور ضلعی انتظامیہ کے افسران زیادہ امدادی سامان اور کھاد وغیرہ کو اپنے اپنے ذاتی گوداموں میں جمع کرنے یا اس کی خرید و فروخت کرنے میں ہی مصروف دکھائی دیے۔ اب جو بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے بہت سارے خدشات عوام کو دامن گیر ہونے لگے ہیں۔ سندھ کے شہر اور قصبات پہلے ہی ہڑپہ اور موئن جو دڑو کے کھنڈرات کا بھیانک منظر نامہ پیش کررہے ہیں۔ ذیلی راستے تو رہے ایک طرف شہروں کے اہم ترین اور مرکزی روڈ راستے بھی سفر کرنے یا پیدل چلنے کے لیے ایک طرح سے ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ ایسے ابتر اور ناگفتہ بہ حالات میں اگر مون سون کی بارش امسال بھی گزشتہ برس ہی کی طرح شدت کے ساتھ اور متواتر برسیں تو خدا نخواستہ طوفان نوحؑ کی سی ہولناک اور خطرناک صورت حال نہ پیدا ہوجائے۔ اسے ہرگز مبالغہ نہ گردانا جائے۔ اہل سندھ اس حوالے سے حد درجہ مضطرب اور پریشان ہیں۔
ارضی اور سماوی آزمائش ہر جگہ آتی رہتی ہیں، لیکن جہاں حکمران طبقہ نااہل، نالائق، بے حس اور اس پر بے حساب بدعنوان بھی ہو وہاں یہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ آج سندھ کے باشندے بھی اسی وجہ سے بجا طور پر بہت بے سکون اور بے حد پریشان ہیں۔ دریں اثنا اہل سندھ کی ایک بڑی تعداد نے پی پی پی کے چیئرمین اور وزیرخارجہ پاکستان بلاول زرداری کے لاڑکانہ میں منعقدہ جلسہ عام (بروز جمعتہ المبارک 21 جولائی) میں کیے گئے اس اعلان کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ متاثرین بارش اور سیلاب کو مالکانہ حقوق کے ساتھ 20 لاکھ گھر تعمیر کراکے دیں گے اس حوالے سے کراچی کے عوام کے حقیقی میئر اور ترجمان حافظ نعیم الرحمن کا یہ تبصرہ صد فی صد حقیقت پر مبنی ہے کہ ’’بے چارے متاثرین بارش گزشتہ ایک برس سے گھر سے بے گھر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ حکومت سندھ نے آج تک ان کی بحالی کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اسی طرح سے 2010ء کے سیلاب متاثرین کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت ِ سندھ نے لاوارث چھوڑ رکھا ہے۔ اب الیکشن قریب آتے دیکھ کر بلاول زرداری 20 لاکھ گھروں کی تعمیر اور انہیں بارش متاثرین کو دینے کا اعلان کرکے عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں۔ ہم نے الخدمت کے پلیٹ فارم سے تاحال سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے ہزاروں متاثرین سیلاب کو محدود وسائل کے باوجود گھر بنوا کر دے بھی دیے ہیں۔
یہ تحریر اختتام پزیر ہونے ہی والی تھی کہ ہاکر حسب معمول اخبارات دے گیا۔ اتفاق سے پہلی ہی درد ناک خبر جس پر نظر پڑی، وہ سندھی روزنامہ ’’سوبھ‘‘ کراچی کے صفحہ اوّل پر نمایاں انداز میں مع چار کمسن بچیوں کی سکھر میں گھر کی چھت گرنے کی وجہ سے لقمہ اجل بننے پر مشتمل تھی۔ بہ خدا! جی بھر آیا اور آنکھیں بے اختیار نم آلود ہوگئیں۔ اپنی معصوم اور کمسن بیٹیاں یاد آگئیں۔ میں سوچنے لگا کہ بروز قیامت ان شاء اللہ یہ شہید بچیاں ضرور ظالم حکمرانوں کا گریبان تھام کر ان سے مخاطب ہو کر کہیں گی کہ
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بے داد گری کا