مہنگی بجلی نہ منظور

499

کراچی والوں کے لیے یہ ایک خوشخبری تھی کہ بجلی کی تقسیم کے ادارے کے الیکٹرک کے لائسنس کی مدت 20 سال بعد آخر کار ختم ہونے والی ہے۔ اگر یہ خوشخبری پوری ہوتی تو 20 جولائی 2023ء کو یہ معاہدہ ختم ہونا چاہیے تھا لیکن اُسی دن نیپرا نے الیکٹرک کے لائسنس میں 6 ماہ کی عبوری توسیع دے دی۔ سندھ کے توانائی کے وزیر فرماتے ہیں کہ جو نجی کمپنیاں کے الیکٹرک لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں وہ حکومت سے رابطہ کریں۔ بھلا آخری دن ہی اُن کو اس کا دھیان کیوں آیا؟ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ 6 مہینے لائسنس کے اضافے کے لیے اندرون خانہ کیا طے پایا ہے؟ پیپلز پارٹی نے 2009ء میں کے الیکٹرک سے معاہدہ کیا تھا۔ جس کے تحت کمپنی کے 31 ارب روپے کے بقایا جات معاف کردیے تھے۔ ساتھ ہی کمپنی کی ادائیگیوں کی ضمانت بھی خود حکومت نے لے لی تھی۔ ایک اور اہم شق یہ بھی رکھی تھی کہ کمپنی کسی بھی قسم کے خسارے سے بری الذمہ قرار دے دی گئی تھی۔ معاہدے میں صاف طور پر لکھا گیا کہ کمپنی درخواست دے تو ملکی قوانین سے متصادم آرڈر کے حوالے سے حکومتی ادارے بھرپور معاونت کریں گے۔ یعنی کمپنی کو ملکی قوانین سے متصادم آرڈر پاس کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی وفاق کی جانب سے 650 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ سے دینے کی شق شامل کی گئی جو 2020ء میں بڑھ کر 850 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ کے الیکٹرک سے جس قدر سابقہ معاہدے سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق کے الیکٹرک کو سب سے زیادہ مراعات اور رعایت پیپلز پارٹی کی حکومت نے دی ہیں۔ جبکہ آخری معاہدہ کے الیکٹرک سے 2015ء میں ختم ہوگیا تھا۔ اس وقت سے آج تک یعنی 8 سال سے کے الیکٹرک سے کوئی معاہدہ ہی نہیں ہوا یعنی بغیر کسی معاہدے کے کے الیکٹرک کو وہی ساری مراعات اور رعایت حاصل ہیں۔ 2021ء میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب تھے جنہوں نے بجلی کے بلوں کے ذریعے کراچی کے عوام پر مزید ٹیکس عائد کرکے 9 ارب روپے وصول کرنے کی منظوری دی تھی۔ اب یہ کچھ مختلف دعوے اور اعلانات کررہے ہیں، حالانکہ کے الیکٹرک کو کراچی پر مسلط کرنے میں ان کی پارٹی کا بڑا ہاتھ ہے۔ کراچی کے عوام ایک طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بے حال ہیں، دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں پھر اضافہ کردیا گیا ہے۔ مہنگائی کا طوفان قابو سے باہر ہے، ملک میں بیروزگاری اور غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں بجلی کے بل میں پانچ روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے اور اب بجلی کا ایک یونٹ 50 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

شنگھائی الیکٹرک نے کے الیکٹرک کے 66.4 فی صد شیئر خریدنے کی 6 سال پہلے بھی دلچسپی ظاہر کی تھی اور اب پھر بولی جمع کرادی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کئی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں تو مقابلے کی فضا رہے گی اور عوام کے لیے سہولت کے ساتھ انتخاب کی آسانی بھی ہوگی۔ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے، انتظامی لحاظ سے کمپنیوں کو بھی معاملات کرنا آسان ہوگا۔

حافظ نعیم الرحمن ٹھیک کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک قومی اداروں کے ساتھ اہل کراچی کا بھی نادہندہ ہے۔ اس کے باوجود ہر سال اس کو اربوں کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ حالاں کہ 20 برس میں معاہدے کے مطابق اس نے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، جب کہ طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سب رعایتوں اور سبسڈی دینے کے باوجود کے الیکٹرک اہل کراچی کو ملک کے دوسرے علاقوں سے مہنگی بجلی دے رہا ہے۔ سندھ حکومت نے کے الیکٹرک کی جس طرح پشت بانی کی ہے وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ اپریل 2017ء میں کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کے احتجاجی جلسوں پر شیلنگ اور براہِ راست فائرنگ بھی کی، نوجوانوں اور بزرگوں کو گرفتار بھی کیا، ان کا مطالبہ کیا تھا؟ یہی کہ 12 اور 18 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ وہ بھی رمضان میں نہ کی جائے، لیکن سندھ حکومت نے پولیس کے ذریعے تشدد کے ساتھ ان مظاہروں کو روکا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا مفادات ہیں جو سندھ حکومت کے الیکٹرک کے ساتھ جڑے ہیں؟ اب پھر کراچی کے عوام کو لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کا تحفہ دینے والے کے الیکٹرک کے لائسنس کو پھر 6 ماہ کی توسیع دے دی گئی ہے۔ کس کس کے کیا کیا مفادات رہے ہیں اور ہیں؟ اس سوال کا جواب کے الیکٹرک کے فرانزک آڈٹ ہی سے مل سکتا ہے۔ بہرحال کراچی کے عوام سندھ حکومت کی کے الیکٹرک کے لائسنس کی توسیع کو مسترد کرتے ہیں۔