خواب دیکھنے والی آنکھیں

467

کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت لگنے لگتا ہے کہ پاکستان کی تخلیق برصغیر کے مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کرنا تھا، حالات اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ہندو قیادت انگریزوں سے آزادی کی خواہاں تھی اور مسلم قیادت ایک ایسے خطہ اراضی کی متمنی تھی جس پر حکمرانی کی جائے، دونوں ہی اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے، ہندو قیادت نے آزادی حاصل کر لی اور مسلم قیادت نے ایک ایسا خطہ اراضی حاصل کر لیا جس پر حکمرانی کر سکے، ہندو قیادت نے خواب دیکھنے والی آنکھوں کو تعبیر دی، بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیں، مسلم قیادت نے خواب دیکھنے والی آنکھوں کی پلکیں بھی نوچ ڈالیں اور بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین لیں، اور اب ان کے ہاتھوں سے لقمہ بھی چھیننے کے لیے سو جتن کررہی ہے۔ المیہ یہ بھی رونما ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید ملت لیاقت علی خان کو وقت نے مہلت ہی نہ دی کہ وہ ایسی طرز حکمرانی کی بنیاد ڈال سکیں جو عوام کی امنگوں کی ترجمان ہو، ان کے بعد جو بھی حکومت آئی وہ اپنے قیام کو طول دینے کے لیے اپنی ذہانت اور توانائی صرف کرتی رہی۔

یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ ہر حکومت اپنی تجوریاں بھرنے پر توجہ دھرتی رہی مگر مادر وطن کی چادر کو داغدار نہیں ہونے دیا اس تناظر میں پاکستان دشمن قوتوں نے عمران خان کو فوق البشر بنانے کا تہیہ کیا اور پھر پاکستان پر مسلط کر دیا، اس تسلط نے عروس وطن کے سر سے چادر اتارنے کی ہر ممکن کوشش کی جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے 13جماعتوں کو میدان میں اُتارا گیا جس نے عمران خان کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا، مگر تیرہ جماعتوں کی حکومت بھی قوم کو تیرہ تین کرنے میں سابقہ حکومتوں سے دو ہاتھ آگے دکھائی دے رہی ہے جو تحریک انصاف کی مقبولیت کا سبب بن رہی ہے، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت چلانا ہے تو پھر انتخابات کرانے اور ارکان اسمبلی کو تنخواہیں اور دیگر مراعات و سہولتیں دینے کا مقصد کیا ہے، اس معاملے میں بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ انتخابات کرانے کے بجائے اقتدار ٹھیکے پر دے دیا جائے تو آئی ایم ایف اور دیگر سود خور اداروں سے نجات مل جائے گی اور عوام بھی مہنگائی کی دلدل سے نکل آئیں گے، کہتے ہیں کہ مہنگائی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے، بلکہ یہی ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے والی قوتیں حکومت چلا رہی ہیں، کچھ سبزیوں کو بھیڑ بکریوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا مگر اب عوام کھا رہے ہیں، غضب خدا کا شلجم اور بینگن جیسی سبزی بھی 120 تا 140 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے، گوار کی پھلیاں جو کہ قربانی کے بکروں کی عام غذا تھیں اب عوام کو بھی بمشکل دستیاب ہیں، قبل ازیں کسی بھی کھیت سے ایک دو کلو مفت میں توڑی جاسکتی تھیں، مگر اب ان کی قیمت بھی دو سو روپے سے اوپر ہے۔

مرے کو مارے شامدار کے مصداق حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کی تیاری کررہی ہے، جماعت اسلامی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کر کے حکومت نے عوام کی جیبوں پر پانچ سو ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے، اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ اگر مہنگائی اسی طرح ہوائی گھوڑے پر سوار رہی تو لگ بھگ 500 افراد ہر ماہ خود کشی پرمجبور ہو جائیں گے۔

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ تیرہ جماعتی حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ بھی نہیں نبھایا، چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے کسی دانشور نے یہ مشورہ دیا ہے کہ چینی کے بجائے گُڑ استعمال کیا جائے تو کسانوں کو بھی فائدہ ہو گا، یہ ایک ایسا حیرت انگیز بیان ہے کہ سیاسی رہنما اور دانشور کچھ کہنے سے پہلے کچھ سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، حکمران عوام کی بھلائی کے لیے کوئی پالیسی تشکیل دیتے ہیں تو رد عمل پر غور نہیں کرتے، حالانکہ عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ عمل سے پہلے رد عمل پر غور کیا جائے، گُڑ کے استعمال کا مشورہ دینے والے دانشور کو یہ بھی نہیں معلوم کہ گُڑ چینی سے زیادہ مہنگا ہے، چینی 130روپے سے 150روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے جبکہ گُڑ 230 سے 250 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے، پہلے گُڑ چاول بڑے شوق سے کھائے جاتے تھے اور گُڑ کی چائے بھی بڑی رغبت سے پی جاتی تھی مگر یہ اچھے وقتوں کی بات ہے، اب گُڑ کا استعمال ایک ایسی عیاشی سمجھا جاتا ہے جسے حماقت پر مبنی کہا جاتا ہے اور یہ حماقت سیاستدان اور سیاسی دانشور ہی کر سکتے ہیں۔