لاہور: ہائی کورٹ نے پنجاب میں سرکاری افسران کے زیر استعمال گاڑیوں سے متعلق تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں سرکاری افسران کے لیے 3 ارب روپے سے زائد مالیت کی 200 گاڑیاں خریدنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے افسران کے زیر استعمال پہلے سے موجود گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
نگراں صوبائی حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز کو 3 ارب روپے مالیت سے زائد کی 200 گاڑیاں دینے کی منظوری کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس کی سماعت جسٹس رسال حسن سید نے کی۔
سردار فرحت منظور چانڈیو ایڈووکیٹ کی درخواست میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری ایکسائز سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ دوران سماعت سرکاری وکیل کی جانب سے درخواست کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے، تاہم عدالت نے سرکاری وکیل کا اعتراض مسترد کردیا۔
عدالت نے درخواست پر نگراں صوبائی حکومت سے سرکاری محکموں اور افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا ہے کہ بتایا جائے کہ صوبے بھر میں کتنی گاڑیاں محکموں اور افسران کے پاس ہیں؟ اگر عدالت جواب سے مطمئن نہ ہوئی تو متعلقہ افسران کو طلب کریں گے اور عدالتی اطمینان کے بعد مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔
عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ حال ہی میں آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر حکومت نے قرض لیا، سخت شرائط پر قرض کے بعد غریب عوام پر بھاری ٹیکسز عائد کردیے گئے، غریب عوام مہنگائی اور بھوک سے خود کشیاں کررہے ہیں جب کہ پنجاب حکومت نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے افسران کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 2 ارب 33 کروڑ روپے سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز اور افسران کی گاڑیوں کے لیے فنڈز جاری کردیے۔ صوبے بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز، افسران اور محکموں کے پاس پہلے ہی بڑی تعداد میں گاڑیاں موجود ہیں۔ نگراں حکومت نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود اربوں روپے گاڑیوں کی خریداری کے لیے جاری کیے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت اسسٹنٹ کمشنرز اور افسران کو گاڑیاں دینے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے اور تمام محکموں اور افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرے۔