میری یہ تحریر کسی کی دل آزاری یا کسی فرد واحد کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کی زبوں حالی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے میں دعا کرتا ہوں اللہ مجھے اور میرے پڑھنے اور سْننے والوں کا دل بھی نرم فرما دے، اور یہ تحریر میری نجات کا ذریعہ بھی بنے آمین۔
میں بہت پرانی بات نہیں کرتا صرف بیس دہائی پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے معاشرہ انتہائی پستی اور ہر شخص سخت دل نظر آتا ہے کوئی شخص بھی کسی کو معاف کرنے اور صلہ رحمی، در گزر کرنے کو تیار نہیں ہے، یہ آج کے معاشرے کا مزاج بن چکا ہے، چاہے کوئی سے بھی رشتے ہوں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ بیماری اْن لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جو پچاس اور ساٹھ سال کی دہائی میں کھڑے ہیں اور اس بات سے بے خبر کہ باقی ماندہ زندگی چند سال سے زیادہ محیط نہیں ہے ویسے تو پل کی خبر نہیں۔ ابھی سانسیں چل رہی ہیں موقع کو غنیمت سمجھا جائے اور اپنی باقی ماندہ زندگی میں اپنے ملنے جلنے والوں اور رشتہ داروں سے اپنے دل میں موجود کینہ نفرتیں بد گمانیاں غلط فہمیوں کو پاک کریں اپنے لیے ربّ کائنات سے یہ دعا مانگیں کہ پروردگار ہمارے دلوں کو نرم کر دے، جو ہماری عاقبت اور روز محشر ہماری نجات کا باعث تو بنیں۔
ہمارا معاشرہ کیوں اتنی تنزلی کا شکار ہو گیا ہے جبکہ ان بیس سال میں کروڑوں لوگ حج و عمرہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوے مگر معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیوں، اتنی ہی بڑی تعداد ہر سال تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی ہوتی ہے جو روح پرور تقاریر اور درس اور ایک اسلامی شعار کے ماحول میں رہ کر آتی ہے مگر معاشرے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی؟ بارہ ربیع الاول پورے ملک میں منایا جاتا ہے سیرت پر خوب باتیں ہوتی ہیں مگر معاشرے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی کیوں، یکم محرم سے لیکر 10 محرم تک پورے پاکستان میں سیدنا حسینؓ کی سیرت پر پورے ملک میں مجالس منعقد ہوتی ہیں مگر نتیجہ صفر، کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ہمارے دلوں میں لوگوں کے لیے دوریاں کیوں اس قدر بڑھتی جا رہی ہیں ہم اس قدر سخت دل کیوں ہو گئے ہیں، جبکہ سب لوگ نمازیں بھی پڑھ رہے ہیں، روزہ بھی رکھ رہے ہیں، صدقہ خیرات بھی کر رہے ہیں اس سب کے باوجود ہم سب پریشان ہیں گھروں سے رونقیں ختم ہو گئی ہیں رزق سے برکت اْٹھ گئی ہے، وقت کی برکت بھی اْٹھ گئی، ناگہانی آفتیں آئے دن سننے کو ملتی ہیں، نوجوان اموات آئے دن سننے کو ملتی ہیں مگر ان سب کے باوجود ہم اپنے کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جبکہ ہم عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ جلد اپنے ربّ سے جا ملیں گے، آئیے اب میں آپ کو وہ حقیقت بتاتا ہوں جو تلخ بھی ہے سچ بھی ہے کہ کیوں ہمارا معاشرہ روز بروز پستی کی طرف جا رہا ہے، مگر اس سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سْنانا ضروری سمجھتا ہوں جو میں اپنی ماں کے منہ سے آکثر سْنتا ہوں، میری والدہ کے نانا دو بھائی تھے دونوں میں نا اتفاقی اس حد تک بڑھ گئی کی معاملہ عدالت تک جا پہنچا تھا وہ کیا عوامل تھے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے بحرکیف دونوں میں میل جول نہیں تھا، صرف ملاقات عدالت میں پیشی کے دنوں میں ہو ا کرتی تھی، دونوں طرف ایک بڑا کنبہ تھا بچوں کی ایک فوج ظفر موج تھی آم کی فصل میں امی بتاتی ہیں کہ ہم سب بہن بھائی بڑے نانا کے گھر چلے جاتے تھے اور وہاں قیام کرتے، اور دوسری طرف چھوٹے نانا کے ناتی نواسے پوتا پوتی اور بہت سے بچے کینوں اور امرود کی فصل میں سب ہمارے گھر آجاتے تھے، اور اس دوران دونوں بھائی عدالت میں مقدمہ لڑ رہے ہیں گھر کی خواتین اور بچوں کو اس بات کا اختیار نہیں تھا کہ وہ بزرگوں کی اس لڑائی میں فریق بنیں اور اپنی رائے دیں اور نہ ہی بچوں کے سامنے بزرگوں کی ہرزہ سرائی اور ان کی لغزشوں کا تذکرہ کیا جاتا، یوں خاندان کے باقی ماندہ لوگوں کے دل میں نہ کوئی بدگمانی نہ دلوں میں کوئی رنجش سب پیار و محبت کے ساتھ رہ رہے تھے۔ چند سال کے بعد معاملات بدلے دونوں بھائیوں میںصلہ صفائی ہوئی خون کے رشتے تھے مل گئے، اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے بزرگوں کی لغزشوں کو کبھی اپنے بچوں کے سامنے تذکرہ نہ کریں صرف اچھی باتیں بتائیں، اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس بات کا اختیار دیں کہ وہ آپ کے سامنے بزرگوں کی شکایت کریں۔
آج ہم بزرگ ہیں مگر ہم نے اس واقعے سے کوئی نصیحت نہیں لی ہم اپنے ماضی کی تلخ یادوں کو معاف کرنا درگزر کرنا تو دور کی بات ہم اس کو بْھلانا بھی نہیں چاہتے بلکہ ان تمام تلخ یادوں کا ٹوکرا نہ صرف اپنے سر پر لیے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کے معصوم ذہینوں میں ا نْ واقعات کو سْنا سْنا کر نہ صرف ان کے ذہنوں کو پرا گندہ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے خونی رشتوں سے ان کو متنفر کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کے چہرے سے معصومیت تک چھین لیتے ہیں جوخونی رشتوں سے اپنے احباب سے دوستوں سے اہل محلہ سے دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، کبھی ہم نے سوچا اس میں نقصان کس کاہے؟ ہم تو چند سال کی زندگی گزار کر دْنیا سے چلے جائیں گے مگر نفرت اور بدگمانی کے بیج جو طرفین اپنے بچوں کے معصوم ذہنوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے، آپ تو دنیا سے چلے گئے، مگر آپ نے نفرتوں اور بدگمانیوں کو اپنی نسل میں منتقل کر کے ان کو نہ صرف رشتوں سے دور کیا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا جو سب آپ کے کھاتے میں جائے گا، مگر افسوس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی نمازیں اپنی عبادات روزہ صدقہ خیرات کے عوض اپنے ربّ کے سامنے سْرخورو ہوں گے تو یہ ہم سب کی بھول ہے، یاد رکھیں اصل دین معاملات ہے، افہام و تفہیم بھائی چارہ محبت و اخوت ہے ممکن ہے میرا ربّ عبادات کی کوتاہی میں ہم پر رحم فرما دے مگر بندے کا بندے کے درمیان جو بھی معاملہ ہو گا تو روز محشر ہی ہوگا اس دن کی کڑی عدالت میں اپنا مقدمہ لے جانے سے بہتر ہے کہ پہل کریں اور اپنے پیاروں کو سینے سے لگائیں جس سے میرا ربّ بھی راضی ہو گا اور معاشرے میں بھی بہتری آئے گی، اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بزرگوں کی عزت اور ان کی تکریم کا بھی درس دیں یاد رکھیں خوش نصیب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے عمل سے اپنی خدمت سے اپنے بزرگوں کے ہاتوں کو جو بظاہر کمزور اور ناتواں سہی مگر مضبوط ایسے کہ جن کی دعائوں سے عرش ہلتے ہیں ان کے ہاتھ اْٹھوا کر ہی اپنے آپ کو دین و دنیا میں اور اپنے ربّ کے سامنے سْرخرو ہو سکتے ہیں، اور آخر میں اس دعا کے ساتھ اے میرے مالک ہمارے دلوں کو نرم فرما دے ہمیں حسن اخلاق، حسن تدبر، اور حسن عمل والا بنا دے تاکہ ہم معاشرے میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکیں اور اللہ ہمیں نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور اس نیک مقصد کی تکمیل میں ہماری مدد و رہنمائی فرما (امین)