مسلم لیگ ن ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کے پانچ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور آئندہ کے لیے بھی یہ جماعت پوری قوت کے ساتھ میدان میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے تجربے سے گزرنے کے بعد کیا آج ہم مسلم لیگ ن کو ایک قومی سیاسی جماعت کہہ سکتے ہیں؟ یعنی اس سوال کے دو حصے ہیں۔ اول: کیا یہ قومی جماعت ہے؟ دوم: کیا یہ ایک سیاسی جماعت ہے؟ قومی سیاسی جماعت ایک ادارہ ہوتی ہے جس میں ملک کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ تو کیا مسلم لیگ ن میں ملک کی تمام وفاقی اکائیوں کی نمائندگی ہے یا یہ صرف پنجاب کی پارٹی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف پنجاب کی پارٹی ہے یا یہ صرف لاہور اور اس کے چند ملحقہ ڈویژنوں کی پارٹی ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپنے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے تحرک کے اعتبار سے ایک سیاسی جماعت کی تعریف پر پورا اُترتی ہے؟ آئیے، مسلم لیگ ن کی موجودہ کابینہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں ان کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے ہے۔ احسن اقبال پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے وفاقی وزیر ہیں اور ان کا تعلق پنجاب کے شہر نارووال سے ہے۔ سعد رفیق وفاقی وزیر برائے ریلوے ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ ہیں، وہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہنے والے ہیں۔ رانا تنویر وزیر تعلیم ہیں (اللہ تعلیم پر رحم فرمائے)، ان کا تعلق پنجاب کے شہر شیخو پورہ سے ہے۔ میاں جاوید لطیف وزیر بے محکمہ تھے، اب شاید مشیر بنا دیے گئے ہیں، یہ لاہور کے رہنے والے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ خرم دستگیر وفاقی وزیر برائے توانائی ہیں، ان کا تعلق پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے ہے۔ مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات ہیں، یہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی ہیں، ان کا تعلق پنجاب کے شہر بہاولپور سے ہے۔ یہی عالم وزرائے مملکت کا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس اس مخلوط حکومت میں تین وزرائے مملکت ہیں۔ حفیظ پاشا کی بیوی عائشہ غوث، ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ عبدالرحمان کانجو لودھراں کے ہیں اور مصدق ملک کا تعلق لاہور سے ہے۔ قریب قریب یہی معاملہ نواز شریف کی کابینہ میں بھی تھا اور ان کی کابینہ دیکھ کر آدمی سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ یہ وفاقی کابینہ ہے یا پنجاب کی کابینہ ہے۔ کابینہ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے تنظیمی ڈھانچے پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہاں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی کا عالم کیا ہے نیز یہ جوہری طور پر ایک سیاسی جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ ہے یا یہ کوئی خاندانی بندو بست ہے جس میں وہی معتبر ہے جو مزاج یار کو بھا جائے؟ نواز شریف پارٹی کے قائد ہیں، یہ منصب ان ہی کو زیبا ہے کہ پارٹی کا مرکز و محور وہی ہیں۔ ان کے بعد پارٹی چیئرمین کا منصب ہے جو راجا ظفر الحق کے پاس ہے۔ پارٹی کے چیئرمین نے گزشتہ دس سال میں پارٹی کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں، اور وہ کس استحقاق کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں، نیز یہ کہ ان کے پاس کوئی اختیار بھی ہے یا انہیں برائے وزن بیت رکھا ہوا ہے یہ وہ اہم قومی راز ہے جو کم از کم میرے علم میں نہیں۔ ایک سیاسی جماعت تحرک اور ارتقاء کا نام ہے، نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر ایسا برفاب انتظام کسی نجی بندوبست میں تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یاد رہے کہ چیئرمین کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں، وزیر اعظم بھی وہی ہیں۔ احسن اقبال، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، پرویز رشید، حمزہ شہباز، سعد رفیق، خرم دستگیر، میاں جاوید لطیف، رانا تنویر وغیرہ کی شکل میں سینئر نائب صدور اور نائب صدور کے غیر ضروری اور نمائشی مناصب پر بھی پنجاب ہی کا غیر ضروری تسلط ہے۔ حکومتی عہدے اور جماعتی مناصب بیک وقت چند مخصوص اور منظور نظر لوگوں کے پاس ہیں۔ پارٹی گویا اطراف لاہور سے شروع ہوتی ہے اور جی ٹی روڈ پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس بات کی کسی کو پروا نہیں کہ بلوچستان، سندھ، کے پی میں پارٹی کہاں ہے؟ کسی کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ اطراف لاہور اور جی ٹی روڈ میں بھی برسوں سے یہ چند شخصیات ہی کیوں ناگزیر ہیں۔
پارٹیوں میں نیا خون شامل نہ ہو اور میرٹ پر نوجوانوں کے لیے راستی نہ کھولے جائیں تو وہ جوہڑ بن جاتی ہیں۔ یہی حادثہ پاکستان کی سیاست پر بیت گیا ہے۔ اب نہ کوئی جدت فکر ہے نہ ندرت خیال۔ فکری افلاس کا عالم یہ ہے کہ وفاقی وزیر عام نوجوانوں کو ٹوئٹر پر گالی نما طعنہ دیتے پائے جاتے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم سے لیپ ٹاپ لے کر کسی اور سے وابستگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کا یہ طرز فکر، تحمل اور برداشت کے بحران کا اعلان تو ہے ہی وہ یہ سوال بھی پیدا کر رہا ہے کہ لیپ ٹاپ قومی خزانے سے تقسیم ہوئے تھے یا مسلم لیگ کے جماعتی فنڈز سے لے کر دیے گئے؟ اگر یہ تقسیم ن لیگ کے فنڈز سے ہوئی ہے تو اس طعنے کا کوئی جواز بنتا ہے لیکن اگر یہ قومی خزانے سے تقسیم ہوئے ہیں اور میرٹ پر تقسیم ہوئے ہیں تو یہ طعنہ کس بات پر دیا جا رہا ہے؟ کیا میرٹ پر دیے گئے لیپ ٹاپ کی اسکیم میں کہیں لکھا ہے کہ لیپ ٹاپ لینے والا جبری طور پر ن لیگ کا مشقتی سمجھا جائے گا اور وہ اس لیپ ٹاپ پر ن لیگ کی قیادت کے علاوہ کسی کی تصویر نہیں دیکھے گا؟
اگر ایک لیپ ٹاپ پر حساسیت کا یہ عالم ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ترقیاتی اسکیموں پر ان کی حساسیت کا عالم کیا ہوتا ہو گا اور ترقیاتی فنڈ کن مقاصد میں استعمال ہوتا ہو گا۔ وقت بدل رہا ہے۔ نوے کی دہائی کی سیاست اب نہیں ہو سکتی۔ یہ بات مگر ایک سیاسی جماعت تب ہی سمجھ سکتی ہے جب اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہے، نئے لوگوں کے لیے راستے کھلے رہیں اور خود احتسابی کی مشق جاری رہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت جاگیر کے بجائے ایک ادارہ بنے۔ یہی نہیں بلکہ ایک قومی ادارہ بنے۔ کیا مسلم لیگ ن یہ بھاری پتھر اٹھا پائے گی؟ اس کے مستقبل کا تعین اس کے فیصلے سے ہو گا۔ ورنہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اہل سیاست پیچھے رہ جائیں گے، معاشرہ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہو جائیں گے۔ (بشکریہ: 92نیوز)