ایک مشہور قول ہے کہ بڑے ذہن رکھنے والے نظریات پر گفتگو کرتے ہیں، اوسط ذہن کے مالک واقعات پر گفتگو کرتے ہیں اور چھوٹے ذہن کے لوگ شخصیات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس مشہور قول پر ایمان لانے اور نہ لانے میں آپ پر کوئی زور زبردستی نہیں۔ ہم خود بھی اس کو آدھا پونا ہی درست سمجھتے ہیں کیونکہ زندگی کی اہم ترین چیز اگر نظریات ہیں تو واقعات اور شخصیات اپنی جگہ زندگی پر اثر انداز ہوتی ہی ہیں۔ لہٰذا ان پر بات کرنے سے چھوٹے اور اوسط ذہن کا الزام دیا جانا کچھ ٹھیک نہیں لگتا۔ یہ ہی دیکھیں کہ مغرب کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کس طرح سیما اور سچن کو لے کر گفتگو کررہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے میڈیا ہائوسز کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ بھارتی میڈیا کے لیے تو خیر ہے ہی چسکے اور چٹخارے والی خبر۔ اگرچہ جیسے ہی یہ خبر آئی کہ اس ’’لوگیم‘‘ کے پیچھے کوئی بھارتی سیاست دان ہے، دونوں ہیرو ہیروئن گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں اور برطانوی میڈیا نے فوکس اس بات پر کرلیا ہے کہ سندھ کے ڈاکوئوں نے دھمکی کے بعد اس پر عملدرآمد بھی کرلیا ہے اور ہندوئوں کی عبادت گاہ پر ایسے حملہ کیا کہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔ البتہ دیواروں پر گولیوں کے نشانات رہ گئے۔ حال یہ تھا کہ کوئی قبیلہ پہلے تو سیما کو اپنا ماننے کو تیار نہ تھا تحقیق کے لیے پاکستانی میڈیا کی اپنے ملک میں پہنچ نہ تھی۔ اب جگہ جگہ کے ڈاکو غیرت دکھاتے ہوئے پاکستانی ہندوئوں کو دھمکاتے ہوئے ویڈیو جاری کررہے ہیں۔ ویسے تو ابھی اس میں ہی کافی ابہام ہے کہ وہ پاکستانی ہے بھی یا نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستانی ہندو بھی اگر بھارت جانا چاہیں تو دو تین سال ویزے کے لیے لٹکا کر رکھا جاتا ہے، ویزا مل بھی جائے تو سیکورٹی کے نام پر وہاں ناک میں دم کیے رکھتے ہیں۔ ہوٹل میں ٹھیریں تو پولیس اور سیکورٹی ایجنسی والے پوچھ گچھ کرنے آجاتے ہیں، جگہ جگہ انٹری کروانے کی پابندی ہوتی ہے۔ ادھر سیما چار بچوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومتی بھارت پہنچ گئیں نہ کوئی پکڑ نہ پوچھ۔
خیر بات میڈیا کی ہورہی تھی، میڈیا کا کردار کسی بھی ملک کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم ہے۔ معیشت سے لے کر معاشرت اور تجارت سے لے کر سیاحت سب ہی کی ترقی میڈیا کی مرہون منت ہے۔ میڈیا کے مثبت استعمال سے ملکوں کے حالات بدلے جاسکتے ہیں اردگرد کے ہمسایہ ممالک پر دھاگ بٹھائی جاسکتی ہے۔ میڈیا ایک طاقت ہے، ایسی طاقت جس کے ذریعے ایسے ملک کے لوگوں میں آگاہی اور شعور بیدار کیا جاسکتا ہے، اقدار، روایات اور تہذیب پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے میڈیا ہائوسز، اینکر اور صحافیوں کی کثیر تعداد ریٹنگ کی دوڑ کا شکار ہیں۔ میڈیا کا اولین مقصد پیسہ کمانا نظر آتا ہے، جو کچھ میڈیا پر دکھایا جارہا ہے وہ کسی طرح نوجوانوں کے لیے مناسب نہیں، رہن سہن، لباس، تہذیب، زبان سب ہی گراوٹ کا شکار ہے۔ خبرنامہ منفی خبروں سے بھرا ہوتا ہے، سیاست کے دریا میں الیکشن کی آمد کا شور زور و شور سے ہے، آنے اور جانے والی حکومتوں کے تجزیے کے ساتھ پیش گوئیوں کا سیلاب اُمڈا ہوا ہے۔ ایک سے ایک بزعم خود دانش ور اور تجزیے نگاروں کی چینلوں پر آمد ہے۔ جو لوگوں کو نت نئے انداز سے سمجھا بجھا رہے ہیں کہ دیکھیں غلط فیصلہ نہ کردیجیے گا۔ منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی ذہن سازی کہیں نظر نہیں آرہی۔ پچھلی کارکردگی ہو یا موجودہ یہاں تو جیسے باری باری حکومت کرنے کا معاملہ چل رہا ہوتا ہے۔ عوام تو بس بلاوجہ ہی بدنام ہوتے ہیں۔
پھر پاکستانی ڈرامے ہیں جو آگاہی کے نام پر وہ کچھ دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ایک فی صد کہیں ہورہا ہوتا ہے جرائم ہوں یا عشق و عاشقی کی تربیت ہمارے ڈرامے بخوبی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ بعض دفعہ تو مجرم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں آئیڈیا ڈراموں سے ملا تھا۔ ٹھیک ہے عقل مند کہتے ہیں کہ برائی کو جتنا عام دکھایا اور بتایا جائے گا وہ اتنی ہی پھیلے گی۔ یہ وطن سے بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے کہ مقبولیت، ریٹنگ اور مالی مفادات کے آگے ہم اپنے مستقبل اور نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر ڈال دیں۔