لاپتا افراد ایک لا ینحل مسئلہ

559

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں؟ راہ گم کردہ اداروں کی طرف سے گم کردہ افراد ایک لاینحل قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ 2000ء میں جب پرویز مشرف کی حکمرانی تھی اس معاملے نے زور پکڑا تو جہاں پورے ملک سے افراد کے اٹھائے جانے والی خبروں میں اٹھان آئی مگر شنوائی کا در بند رہا، وہ دور حکمرانی گیا تو 2011ء کی سیاسی حکومت نے ضرورت محسوس کی کہ اس کو نمٹانے کے لیے کمیشن بنادیا جائے تو ریٹائر چیف جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1977 شکایات ملیں جو 2019ء میں بڑھتے بڑھتے 6500 تک پہنچ گئیں۔ 4365 نمٹانے کا دعویٰ سامنے آیا۔ 872 درخواست خارج کردی گئیں۔ 3500 کا سراغ لگایا گیا اور بتایا گیا کہ 501 جیلوں میں 810 حراستی کیمپوں میں ہیں اور 805 لاشیں ملی ہیں۔ کمیشن پر لاپتا افراد کے لواحقین نے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور حاضر سروس عدالت عظمیٰ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق لاپتا افراد کے 9736 مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں 2 ہزار 927 کا کوئی اتا پتا نہیں اور سال رواں کے چھے ماہ میں 533 نئے مقدمات درج ہوئے ہیں ان کے لواحقین سراپا احتجاج ہیں کہ اُن کے پیاروں کی خبر تو دے دو کہ ان کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ یا وہ آدم خوروں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یہ پتا چل سکا کہ کچھ افراد گاڑی سوار آئے اور اُچک کر چل دیے۔ اتا نہ پتا کون تھے لاپتا کرنے والے وہ معلومات کا خلا چھوڑ گئے تو خلائی مخلوق کا چرچہ ہونے لگا اور اُن کے خلاف تھانے میں پرچہ بھی درج نہ ہونے دیا گیا تو جانا کہ یہ قانون سے ماورا ہیں۔ عدل اور عدلیہ سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں نہ ہی عدلیہ نے کھوجنے کی ذمے داری نبھائی جو سیاست کے تانے بانے میں الجھی روز بروز اپنا تقدس و قار کھورہی ہے۔ متاثرہ گھرانے نے عدل کی زنجیر کو بھی ہلایا مگر کچھ نہ پایا۔

بات انصاف کے قتل کی یوں بھی شروع ہوئی کہ وہاں سے انصاف کے لیے جو درکار ہوتا ہے وہ ہر اک کے پاس نہیں ہوتا کہ عرف عام میں وہ جج کرلے اور لاپتا کرنے والے بھی بے صبرے ہوگئے۔ اور انہوں نے ہاف فرائی اور فل فرائی کا نسخہ ایجاد کرکے اس پر عمل کرنا شروع کردیا اور یہ تاثر دینا شروع کیا کہ ملک کی سلامتی خاطر جان لینا اور دینا دونوں جائز ہے، بھلے وہ شریعت اور ملکی قانون کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے بھی اب جج زیادہ بولتے ہیں اور اُن کے فیصلے کم بولتے ہیں۔ متاثرہ تولتے ہیں تو فرق صاف ظاہر ہے گردن ڈھلک جاتی ہے۔ تو متاثرہ جائے تو جائے کہاں۔ وہ عطا اللہ مینگل کا فرزند ہو یا مجاہد حافظ عبدالصمد نے اُن کی بات نہ مانی تو جائو قبر میں اور رشتے داروں کو قبر کی خبر بھی نہ دو۔ ظلم کی انتہا ہے نظریہ ضرورت کے تحت تیار کرو اور پھر ٹشو پیپر کی طرح مسل دو۔ اور حقوق کی کوئی بات کرے تو غدار قرار دو۔ یہی دو طبقے متاثرہ ہیں یا پھر بغض و عناد کے شکار نہ جھکنے والے۔

روس گرم پانی کی تلاش میں افغانستان آیا تو حکمرانوں کو جہاد یاد آیا تھا۔ شوق شہادت کے متوالے مجاہد تیار کیے گئے جنہوں نے روس کو مار بھگایا۔ تو پھر حکمران وقت پرویز مشرف کو ان کی ضرورت نہیں رہی تو انہیں دورے ڈھب پر لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مطلب کی بات نہ بنی تو لاپتا کرنا شروع کردیا کیونکہ وہ نظریہ پاکستان نظام اسلام کی بات کرنے لگے تو قابل گردن زدنی قرار دیے گئے۔ قانون بھنگ پی کر سو گیا۔ دوسرے وہ بلوچستان کے احباب اٹھائے جانے لگے جنہوں نے گوادر، چاغی، ریکوڈک منصوبہ میں جوان کی سرزمین پر عطیہ خداوندی سے اپنا حق حصہ طلب کیا تو کہا گیا کہ سر جھکا کر جیو، تو کچھ نے سر اُٹھا کر ہتھیار بھی اٹھالیے اور ازلی دشمن بھارت، اسرائیل نے موقع غنیمت جانا اور ان پر ہاتھ رکھ دیا۔ بنیادی اصول کے تحت کسی بھی فریق کا نقصان ہوا تو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ جن کی مائوں نے آزاد جنا وہ اس ظالمانہ نظام سے آزادی کی خاطر جان بھی لگا چلے۔ جبر و تشدد بغاوت پیدا کرتا اور تیزی سے پھیلاتا ہے۔ بات اور حل ہے اسلام کا نظام جو مجاہدین کی تکریم کا درس دیتا ہے اور فرمان ربّ ہے کہ نہ ظلم کرو نہ ظلم کیے جائو گے۔ دوطرفہ بننے والا ہو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اور مودی پھبتی کس رہا ہے کہ پاکستان اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ مسئلہ کا حل بات چیت ہے دلیل سے قتل اور ذلیل کرنے سے ہرگز نہیں نعرہ مقبول ہے خون رنگ لائے گا تو انقلاب آئے گا اور قول صادق سے محبت فاتح عالم۔ دونوں مسلم ہیں اغوا کرنا بند کرو۔