پاکستان اور او آئی سی کے تعاون سے جنیوا میں واقع اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کونسل میں سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے کے خلاف پیش کی جانے والی مذمتی قرار داد کی منظوری جہاں دنیا بھر کے پونے دو ارب مسلمانوں کی جیت ہے وہاں اس قرارداد پر امریکا سمیت یورپی ممالک نے اپنی مخالفت کے ذریعے ان کی انسانیت دوستی اور انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کے دعوئوں کی قلعیٔ بھی کھول کررکھ دی ہے۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کونسل نے یہ قرارداد امریکا اور یورپی یونین کی مخالفت کے باوجود قبول کی ہے یہ قرارداد پاکستان نے او آئی سی کے تعاون سے پیش کی تھی، امریکا اور یورپ نے حسب توقع قرارداد کو انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے تصورات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی البتہ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ انسانی حقوق کونسل نے اس واقعے کو آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال کے طور پر قبول کرلیا، سعودی عرب اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے اجلاس سے آن لائن خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل 47 ارکان پر مشتمل ہے جس کے 28 ارکان نے اس قرارداد کے حق میں 12 نے خلاف ووٹ دیا جن میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین پیش پیش رہے جبکہ 7 ارکان غیر حاضر رہے جنہوں نے سرے سے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔ ان 7 ارکان کی حاضری اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ انہوں نے قرارداد کے خلاف ووٹ نہ دے کر قرآن کی بے حرمتی کو آزادی اظہار کا حق بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس قرار داد میں مذہبی منافرت کے تمام مظاہر بشمول قرآن پاک کی بے حرمتی کی عوامی اور منصوبہ بند کارروائیوںکی مذمت کے علاوہ اس کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
فرانس، ڈنمارک اور سویڈن میں نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے پے درپے واقعات کے بعد گزشتہ دنوں اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کے صفحات پھاڑ کر جلانے کے بعد پوری مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر کا دوڑنا اس واقعے کا فطری ردعمل ہے۔ اس واقعے کے بعد تقریباً دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے خود پاکستان میں اس واقعے کی نہ صرف سرکاری سطح پر مذمت کی گئی بلکہ پالیمنٹ نے اس شرمناک واقعے کے خلاف مذمتی قرارداد کی منظوری کے ذریعے بھی پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس واقعے کے خلاف بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر کچھ دیر کے لیے دھاوا بولا گیا، ایران نے اسٹاک ہوم میں اپنا نیا سفیر بھیجنے سے روک دیا اور اسلامی تعاون تنظیم نے سویڈن کے حکام کی مذمت کی اور جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے اس معاملے پر بحث کرنے کو کہا۔ ترکی نے بھی اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے سویڈن میں قرآن پاک کے بے حرمتی کا حوالہ دیتے ہوئے سویڈن کی ناٹو میں شمولیت کی درخواست کی منظوری کو روکنے کی ایک وجہ قرار دیا حالانکہ اس واقعے سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے درخواست کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن ترکی عین وقت پر اسٹاک ہوم کے اس واقعے کے ردعمل میں اپنا یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوا۔
قابل مذمت اور لائق گرفت امر یہ ہے کہ سویڈش پولیس کو اس واقعے کے بعد بھی بعض مذہبی جنونیوں کی جانب سے مزید ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو نعوذباللہ قرآن پاک، بائبل اور تورات سمیت دیگر مذہبی کتابوں کو جلانا چاہتے ہیں جس کے بعد اسٹاک ہوم پولیس حکام میں یہ تشویش پیدا ہوئی ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ دراصل حالیہ قرارداد کی منظوری کے ذریعے دنیا بھر میں اربوں عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ایک پیغام بھیجا گیا ہے کہ مذہبی منافرت چاہے کسی بھی شکل میں ہو قابل گرفت ہے البتہ جن ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے ان میں سیاسی، قانونی اور اخلاقی جرأت کی کمی کو واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب اس قرارداد کی منظوری سے عالمی سطح پر اس احساس کو پختہ کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر کیے جانے والے منفی اقدامات عالمی امن کو برباد کرسکتے ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن غیر مسلم ممالک نے پاکستان اور او آئی سی کی قرارداد کے حق میں رائے دی ہے ان میں چین اور بھارت بھی شامل ہیں۔ امریکا اور برطانیہ کی جانب سے اس قرارداد کی کھلی مخالفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے تصورات ان کے سامراجی عزائم اور قوموں کو دبائے رکھنے کا آلہ ہیں۔ حکومت پاکستان اور او آئی سی کے اس قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس مسئلے کو عالمی برادری میں زیادہ طاقت سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صرف قرار دادیں تو کشمیر و فلسطین پر بھی بہت منظور ہوچکی ہیں لیکن عمل کسی پر نہیں ہوتا لہٰذا اسلامی ملکوں کو ایسے ممالک جہاں پر یہ شرانگیزیاں کی جاتی ہیں کے خلاف تادیبی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ا س کے بغیر یہ ممالک اس طرح کے اقدامات سے باز نہیں آئیں گے جب کہ اس ضمن میں مسلمانوں پر یہ اخلاقی فریضہ بھی عائد ہوتا ہے کہ انہیں پہلے سے بڑھ کر قرآن پاک کو سمجھ کر نہ صرف پڑھ کر اس پرعمل کرنا ہوگا بلکہ مسلم دنیا کو قرآن پاک کو اپنے اپنے ممالک میں دستور العمل بنانے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔