اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت نادہندگی کے دہانے پر ہے، سسکیاں لے رہی ہے، ہمیں اعتراف ہے کہ حکومت سرِ دست ملک کو نادہندگی سے بچانے میں کامیاب رہی ہے، لیکن ابھی تک معیشت خطرے سے مکمل طور پر نکل نہیں پائی۔ طویل اور صبر آزما جِدّوجُہد کے بعد آخر کار 30جون کو وزیر اعظم نے وزیرِ خزانہ کے ہمراہ خود اعلان کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف کی سطح پر تین ارب ڈالر کا مختصر المدتی معاہدہ ہوگیا ہے، وسط جولائی میں آئی ایم ایف بورڈ سے اُس کی منظوری مل جائے گی اور رقم کا اجرا شروع ہوجائے گا۔ اس سے یقینا معیشت کو عارضی طور پر سہارا ملے گا، داخلی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا اور روپے کی قدر میں کسی حد تک استحکام آسکے گا۔ موجودہ حکومت کا یہ کردار لائق ِ تحسین ہے کہ اُس نے اپنی مقبولیت کی قربانی دے کر آنے والی عبوری حکومت کے لیے معاشی حالات کو سازگار بنایا ہے، حب الوطنی اسی ایثار کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ گزشتہ حکومت نے جاتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بگاڑ دیے تھے تاکہ آنے والے اس کے نتائج بھگتیں۔
ہماری معیشت کی رگِ جاں یہ ہے کہ ہماری درآمدات کا حجم برآمدات سے بہت زیادہ ہے، زرِ مبادلہ کا توازنِ ادائیگی ہمارے حق میں نہیں ہے، نیز یہ بھی واضح ہے کہ یہ ساری اُفتاد راتوں رات عالَمِ غیب سے نازل نہیں ہوئی، بلکہ اس میں کم وبیش ماضی کی ہرحکومت کا حصہ رہا ہے، یہ بھی امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
ہمارے ہاں یہ شعار بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے کہ تمام حالات کی ذمے داری حکومت ِ وقت پر ڈال دی جاتی ہے، میڈیا ’’سیاپا فروشی‘‘ کو اپنا شعار بنالیتا ہے، حکومت ِ وقت پر لَعن طَعن کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹتا ہے تاکہ اسکرین کی رونق بڑھائے۔ سیاپا ہندی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’غم، رنج، سوگ، ہائے، واویلا، رونا پیٹنا، آفت، مُصیبت‘‘ اور سیاپا فروشی کے معنی ہیں: ’’واویلا مچانا، دہائی دینا، سوگ منانا اور رونا پیٹنا‘‘، ہمارے پنجاب کے اینکر، تجزیہ کار اورکالم نگار یہ اصطلاح وقتاً فوقتاً استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے کے حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکین ِ وطن کی اموات پر آبدوز کے سانحے میں دوکھرب پتی باپ بیٹے کی ہلاکت کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے، حالانکہ اول الذکر بڑی رقمیں خرچ کرکے بہتر روزگار کی تلاش میں گئے تھے، جبکہ مؤخر الذکر لاکھوں ڈالرادا کر کے سیاحت کے لیے گئے تھے، اگرچہ ہر ایک کی موت ایک المیہ ہے، لیکن سانحات میں فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔
میڈیا کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ لوگوں میں آگہی پیدا کرے اور بتائے کہ بیرونِ ملک جانے سے پہلے کوئی ہنر ضرور سیکھنا چاہیے اور قانونی ذرائع اختیار کرنے کو ترجیح دینی چاہیے، نیز انسانی اسمگلنگ کا جو نیٹ ورک کام کر رہا ہے، اُس پر کنٹرول کے لیے بھی کوئی سائنٹیفک طریقۂ کار ہونا چاہیے، ایسا نہ ہوکہ وقتی طور پر دکھاوے کے لیے پکڑ دھکڑ ہوئی اور جونہی سانحہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوا، ہمارے ناقص تفتیشی اور عدالتی نظام کے سبب بھاری رقمیں خرچ کر کے سب کو رہائی مل جائے اور وہ پھر اسی کام میں مشغول ہوجائیں۔
حکومت نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض لے کر یا پرانے قرضوں کو رَول اُووَر کر کے وقتی طور پر مصیبت کو ٹال دیا ہے، لیکن یہ عارضی علاج ہے، مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کیا جائے، سرِ دست حکومت ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے اسی طرف جارہی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے، نیز بیرونی سرمایہ کاروں کو اس بات کی ضمانت چاہیے کہ اُن کی رقوم محفوظ رہیں گی، بوقت ِ ضرورت انہیں واپس مل جائیں گی اور وہ اصل سرمایہ منافع سمیت واپس لے جاسکیں گے، ایسا نہ ہو کہ حکومت بدلتے ہی پوری پالیسی بدل جائے، شاید یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی مقامی قیادت حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں سے یقین دہانیاں حاصل کر رہی ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری سے معیشت کا پہیہ کسی حد تک رواں دواں ہوسکتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، مگر اس کے لیے لازم ہے کہ مقامی مزدوروں، فنی عملے، ٹیکنوکریٹس اور انجینئروں کو ان اسکیموں میں روزگار دیا جائے، کیونکہ ماضی میں سی پیک کے تحت چین نے جو سرمایہ کاری کی، اُس میں کافی حد تک وہ عملہ اپنے ملک سے لائے، اُن کو یہاں گزر اوقات کے لیے الائونس دیے اور اُن کی اصل تنخواہیں اپنے وطن میں اپنی کرنسی میں اُن کے اکائونٹ میں منتقل کی جاتی رہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنے بڑے سائز کی سرمایہ کاری تھی، اتنا زرِ مبادلہ ہمارے اسٹیٹ بینک میں منتقل نہیں ہوا، کیونکہ کارکنان، ٹیکنیکل اسٹاف، انجینئر اور انتظامی عملے کی بھاری تعداد اور مشینری بھی چین سے آئی، لہٰذا موٹرویز تو بن گئیں، لیکن زرِ مبادلہ کی جتنی سپورٹ ہمیں ملنی چاہیے تھی، اُتنی نہیں ملی۔
اسی طرح جو بیرونی سرمایہ کار ہمارے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ منافع سمیت اصل رقم زرِ مبادلہ کی شکل میں لے جاتے ہیں حتیٰ کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں تارکین ِ وطن پاکستانیوں نے زرِ مبادلہ کی شکل میں محدود عرصے کے لیے رقوم پاکستان میں جمع کیں، اُس دور میں مغرب میں شرحِ سود زیادہ سے زیادہ دو فی صد تھی، ہم نے تیرہ فی صد کی پیش کش کی، انہوں نے وہاں کے بینکوں سے دو فی صد کی شرحِ سود پر رقوم لیں، پاکستان میں لاکر جمع کیں اور ’’ہینگ لگے نہ پھٹکڑی، رنگ چوکھا آئے‘‘ کے مصداق کچھ عرصے کے بعد کسی معاشی عمل کے بغیر اصل رقم کے ساتھ ساتھ تیرہ فی صد منافع بھی زرِ مبادلہ کی شکل میں لے گئے، اس پر بعض ماہرین ِ معیشت نے متنبہ بھی کیا تھا کہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور یہ سب کچھ ہوگیا۔
اگر سعودی حکومت بالفرض آئل ریفائنری پر دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتی ہے، تو اس میں ہمارے مزدوروں، ٹیکنیشنز، انجینئرز اور انتظامی عملے کو روزگار تو یقینا مل جائے گا، لیکن سعودی حکومت منافع سمیت اصل سرمایہ زرِ مبادلہ کی شکل میں لے جائے گی، وہ کہاں سے آئے گا، اسی طرح چین، امارات اور قطر وغیرہ کے منصوبوں کا مسئلہ ہے۔ پس لازم ہے کہ ان دوست ممالک کو ایسے کارخانے لگانے اور ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے جو برآمدات پر مشتمل ہوں، یعنی جن کی پیداوار بیرونِ ملک برآمد کر کے زرِ مبادلہ کمایا جاسکے، اس سے ہمارے دوست سرمایہ کار ممالک اپنا اصل سرمایہ منافع سمیت لے جاسکیں گے، لیکن اسٹیٹ بینک میں زرِ مبادلہ براہِ راست آئے گا اور ہمارے توازنِ ادائیگی کو مُعْتَدبِہ سہارا بھی ملے گا۔ تیس جون کو اپنی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے: ’’دوست ممالک اپنا سرمایہ اور منافع زرِ مبادلہ کی شکل میں واپس نہیں لے جائیں گے، بلکہ برآمدی سامان کی شکل میں لے جائیں گے‘‘، بادی النظر میں یہ بشارت حوصلہ افزا ہے، لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم اُن کو درکار برآمدی مال وافر مقدار میں تیار کرنے کے قابل ہوجائیں، تب ہی یہ دعویٰ عملی نتائج کا حامل ہوگا، سو ہمیں اس کے شواہد کا انتظار رہے گا۔
اسی کو ’’بارٹر سسٹم‘‘ یعنی مال کے بدلے میں مال کی تجارت کہا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد حکومت نے ایک اور اعلان میں کہا: ’’بیرونی سرمایہ کار منافع سمیت اپنا اصل سرمایہ اپنی کرنسی میں لے جاسکیں گے‘‘، ظاہر ہے: اُن کی کرنسی ریال، درہم، دینار، یوآن، یورو، پائونڈ اور ڈالر ہوں گے، ہمارے لیے یہ سب ’’فارن کرنسی‘‘ ہے اور تاحال ان کی شرحِ تبادلہ کے لیے بھی عالمی سطح پر معیار ڈالر ہی ہے، ابھی کسی اور کرنسی نے اس کی جگہ نہیں لی۔
حال ہی میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سہولت کاری کی خاطر ایک خصوصی ادارے ’’اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل‘‘ کا قیام عمل میں آیا ہے، یہ اچھی علامت ہے، چیف آف آرمی اسٹاف بھی بذاتِ خود اس کونسل کی لانچنگ میں شریک ہوئے اور اس کے قیام کی بھرپور تائید کی، یہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ایک توانا اور مثبت پیغام تھا۔ اسے ’’ون ونڈوآپریشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی ایک ہی مقام پر رجوع کرنے کے سبب سرمایہ کار دربدر خوار ہونے سے بچ جائیں گے، ان کو جہاں سے جو منظوری درکار ہو گی، یہ ادارہ پوری مستعدی کے ساتھ کم از کم وقت میں ان کو یہ ساری منظوریاں حاصل کر کے دے گا۔ ایسے دعوے پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ہم نے کبھی بھی انہیں نتیجہ خیز ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، پس ضروری ہے کہ اس مجوَّزہ کونسل میں دیانت دار بیوروکریٹ، معاشی بصیرت کی حامل سیاسی قیادت، صنعت کار وں، تاجروں اور ماہرین ِ معیشت کو شامل کیا جائے۔
لازم ہے کہ ’’ادارۂ سہولت کاری برائے سرمایہ کاری‘‘ کو بااختیار بنایا جائے، بیرونی اور داخلی سرمایہ کاروں کے سرمائے کو آئین وقانون میں تحفظ دیا جائے، اسی کو ’’میثاقِ معیشت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ماضی کی طرح ’’ہرکہ آمد عمارتِ نو ساخت‘‘ والا معاملہ ہو، جیسے پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک کے چلتے ہوئے منصوبوں کو منجمد کردیا اور سب کچھ ٹھپ ہوگیا۔ اسی طرح سرکاری اسپتالوں کی استعداد کو بڑھانے کے بجائے ملک کے زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہیلتھ کارڈ کا اجرا شروع کیا گیا، اس سے پرائیویٹ اسپتالوں کو سپورٹ ملی اور سرکاری اسپتالوں کے وسائل محدود ہوکر رہ گئے، رشوت کا عنصر بھی شامل ہوگیا، حال ہی میں پنجاب حکومت نے کہا ہے: ’’اس سے کئی لوگ ارب پتی بن گئے‘‘۔ موجودہ حکومت کے بڑے اسٹیک ہولڈرز مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میثاقِ معیشت کے لیے تیار ہیں، پی ٹی آئی کی جانب سے بھی مثبت پیغام آنا چاہیے، یہ سب لوگ سیاست میں ضرور ایک دوسرے کے حریف بنے رہیں، لیکن ملک کی بقا کے لیے میثاقِ معیشت میں انہیں ایک دوسرے کا حلیف بننا ہوگا، یعنی: ’’چمن کی فکرکرو، آشیاں کا غم نہیں‘‘، چمن سلامت رہے گا تو سب پرندے اپنا اپنا آشیانہ بنانے کے لیے جگہ پالیں گے، لیکن اگر چمن ہی اجڑ گیا، تو کسی کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا، نوٹ: ہم نے ماضی میں ’’ہمارے بین الاقوامی معاہدات‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا، اس کے مندرجات کو دوبارہ تازہ کریں گے۔