سندھ میں بدامنی کے ذمے دار وڈیرے

772

صوبہ سندھ بدترین بدامنی کا شکار ہے اور صورتِ حال یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ معصوم بچوں کو اغوا کرکے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ان معصوم بچوں پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے ان معصوم بچوں کے بے کس بے بس والدین کو تڑپایا جارہا ہے۔ کچے کی اربوں روپے مالیت کی زمین پر قابض ان ڈاکوئوں نے علاقہ کو نوگوایریا بنا رکھا ہے اور حکومت کی رٹ ان علاقوں کی سرحد پر کھڑی منہ تک رہی ہے۔ مغویوں کی بازیابی کا پولیس کے پاس سوائے اس کے کوئی طریقہ نہیں کہ وہ منت سماجت کرکے بااثر سیاسی پتھاریداروں کی مٹھی گرم کرکے اپنی عزت بچائے۔ تغیان قبیلہ کے ڈاکوئوں نے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور پولیس کے ہتھیاروں کا اُن سے مقابلہ ہی کیا ہے۔ حکومت سندھ نے ایک ارب روپے کے لگ بھگ رقم مختص کردی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک پولیس افسر طے شدہ پروگرام کے تحت مغوی بچے کو بازیاب کرانے گیا تو خود اغوا ہوگیا۔ سندھ کی بدامنی کے پیچھے سیاسی پشت پناہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ’’ڈاکو‘‘ ان کے کمائو پوت ہیں اور تو اور جرائم پیشہ افراد بھی ان سیاست دانوں نے پولیس میں بھرتی کرادیے ہیں جو محکمہ کی سرگرمیوں کی مخبری کرکے ڈاکوئوں کو آپریشن کے خدوخال سے پیشگی آگاہ کردیتے ہیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کے بقول اگر ہمارے ہاتھ جو سیاسی رسی سے بندھے ہوئے ہیں کھول دیے جائیں تو پھر بدامنی ایسا مسئلہ نہیں جس سے نمٹا نہ جاسکے۔ اس دلیل میں وزن ہے، ہمارے علاقے میں موٹر سائیکل چوروں کے خلاف ایک ایس ایچ او نے آپریشن کیا اور چند ملزمان مع چوری شدہ سامان پکڑے بھی تو اس کو بااثر سیاسی لوگوں کے اتنے فون آئے کہ اُس نے تبادلہ کرانے میں عافیت جانی اور وہ رات کے پیٹ میں تبادلہ کراکر چلا گیا۔ وہ ملزمان کو چھوڑ کر ضمیر کا سودا نہیں کرنا چاہتا تھا تو بااثر سیاسی حکمراں پارٹی کے سرکردہ کا دبائو بھی برداشت کرنا اُس کے بس کی بات نہ ہوسکی۔ نواز شریف کے دور حکمرانی میں ڈاکوئوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن فوج کی مدد سے کیا گیا اور کوئی سیاسی دبائو قبول نہ کیا گیا تو بیش تر ڈاکو مارے گئے اور جو باقی بچے وہ دبک گئے یوں ہی ایک واقعہ اور ہدیہ قارئین ہے۔

ملک میں پہلے مارشل لا کا توتی بول رہا ہے، ایوب خان کا رعب تو تھا ہی مگر اس وقت کے گورنر ملک امیر محمد خان جو پورے مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور ون یونٹ کے نظام کی بدولت مغربی حصہ چار صوبوں میں تقسیم نہ تھا کا دبدبہ بھی اچھے اچھوں کے پسینہ چھڑا رہا تھا۔ سکرنڈ میں ایک ہندو سیٹھ کو ڈاکو اغوا کرکے لے گئے، معزز شہریوں کا ایک وفد گورنر مغربی پاکستان سے ملا تو انہیں یہ بتایا کہ جناب ہمارے شہر سے ایک ہندو سیٹھ کو اغوا کرکے لے گئے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ڈاکو انسان کو اٹھا کر لے گئے ایسا بھی ہوا ہے تو وفد نے بتایا کہ جی ہاں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ تو گورنر ملک امیر محمد خان نے کہا کہ آپ گھر پہنچیں گے اس سے پہلے وہ سیٹھ بھی بازیاب ہو کر گھر آچکا ہوگا۔ ان ایام میں جو ایس پی ضلع نواب شاہ تھے اُن کو گورنر ہائوس سے بازیابی کا حکم موصول ہوا کہ 24 گھنٹوں میں مغوی بازیاب ہونا چاہیے۔ ایس پی صاحب نے علاقے کے سب وڈیروں کو آفس میں طلب کیا اور کہا کہ خیریت چاہتے ہو تو مغوی کو واپس کرائو ورنہ تمہاری لاشیں جائیں گی۔ اور پھر ہوا بھی یوں ہی۔ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی، مغربی بازیاب ہو کر گھر آگیا اور وڈیرے بھی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ہر وڈیرہ اپنے علاقے کا ذمے دار قرار دے دیا جائے کہ اگر اُس کے علاقے میں کوئی واردات ہوئی تو اس کی گردن دبوچ لی جائے گی تو پھر دیکھنا کہ اغوا کی وارداتوں سے لے کر چوری چکاری کے معاملات کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ ہر برادری کے سربراہ کو پابند کیا جائے کہ وہ برادری کو ڈاکوئوں سے پاک کرکے قانون کی پاسداری کرے، ورنہ وہ ذمے دار ہوگا تو پھر امن و امان قابل اطمینان ہوجائے گا۔ اغوا بھی کاروبار ہے اور خوب منافع بخش ہے۔ اس کی کمر اسی صورت ٹوٹ سکتی ہے۔