بھارت سے متعلق یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد

613

یورپی پارلیمنٹ نے بھارت میں اقلیتوں کی صورت حال سے متعلق ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں وہاں بسنے والی اقلیتی آبادی پر نسلی و مذہبی تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزادی اظہار پر بھارتی حکومت کی عائد کردہ پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی گئی ہے پارلیمنٹ نے مستقبل سے متعلق بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت میں آزادیٔ اظہار رائے اور مذہبی آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہے گی قرار داد میں ایک قدم مزید آگے جاتے ہوئے یورپی حکومتوں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یورپی یونین اور بھارت کے درمیان تجارت اور شراکت داری کے تمام شعبوں کو انسانی حقوق کی فراہمی سے منسلک کیا جائے اور بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف و رزیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں، یورپی پارلیمنٹ نے اپنی قرار داد میں بھارت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتوں پر نسلی اور مذہبی تشدد روکا جائے اور انہیں ریاستی سطح پر مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ قرار داد میں عیسائی اقلیت کی ریاست منی پور کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ حکومتی پالیسیوں مثلاً ذرائع ابلاغ پر پابندیوں اور نسل پرستی پر مبنی قانون سازی کے باعث حال ہی میں منی پور کی ریاست فسادات کی شکار رہی جو نہایت تشویش ناک ہے ان فسادات میں بھارت میں اکثریت کے عدم برداشت کے رویے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ریاست منی پور میں حال ہی میں ہونے والے جن نسلی فسادات کا حوالہ یورپی پارلیمنٹ کی اس قرار داد میں دیا گیا ہے ان کے دوران ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ دس ہزار سے زائد لوگوں کو جان کے خطرے کے پیش نظر اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینا پڑی تھی… ان ہی فسادات کے دوران حکمران بی جے پی کے دو وزراء کے گھر بھی جلا دیئے گئے تھے۔

یوں تو بھارت جب سے وجود میں آیا ہے وہاں اقلیتیں خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہی ہیں اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف فسادات معمول رہے ہیں تاہم جب سے انتہا پسند سوچ کے حامل موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی، جنہیں خود مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ’’گجرات کا قصاب‘‘ کا لقب دیا تھا اور امریکی حکومت نے دہشت گرد قرار دے کر ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، کی قیادت میں بھارت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے، اقلیتوں کی زندگی بہت زیادہ اجیرن ہو گئی ہے، انتہا پسند ہندو عناصر کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور وہ کھلم کھلا بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے نہ صرف نعرے لگاتے ہیں بلکہ عملاً بھی بھارت میں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ غیر ہندو آبادی خود کو غیر محفوظ اور ہر وقت خطرے میں محسوس کرتی ہے، آر ۔ ایس ایس کے مسلح جتھوں کا خوف غیر ہندئو آبادی پر مسلط کر دیا گیا ہے جو لوگوں کو زبردستی ہندو بنانے کی باقاعدہ مہم پورے بھارت میں چلائے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ اور دوسرے مختلف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بار ہا اس صورت حال کی نشاندہی کی جا چکی ہے مگر بی جے پی حکومت کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں کے لیے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمان اقلیت ہندو انتہا پسندوں کے خصوصی نشانے پر ہے جب کہ واضح مسلم اکثریت کا خطہ کشمیر بھارتی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے باعث اذیت ناک حالات سے دو چار ہے دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے سب سے بھاری تعداد میں فوج اس خطہ میں لوگوں کو جبراً بھارت کے غیر قانونی تسلط میں رکھنے کے لیے مسلط کی گئی ہے، پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے اسی جانب دنیا کو متوجہ کرتے ہوئے اپنی ہفتہ وار بریفننگ میں بتایا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث ہے مگر گزشتہ پون صدی سے جاری ظلم و جبر بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچل نہیں سکا۔ کشمیری عوام نے تیرہ جولائی کو 1931ء میں ڈوگرہ فوج کی کشمیری مسلمانوں پر فائرنگ سے شہید ہونے والے نہتے مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’یوم شہدائے کشمیر‘‘ منایا اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی۔ بی جے پی کی قابض انتظامیہ نے اس موقع پر لوگوں کو شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر مزار شہداء نقشبند صاحب سری نگر جانے کی اجازت نہیں دی جب کہ قابض فوج نے وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں پانچ بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جب کہ اس سے پہلے ہزاروں معصوم نوجوان بھارتی فوج کے عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت قیادت طویل عرصہ سے جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہے۔ ایک لاکھ کے قریب کشمیری آزادی کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں۔مقبوضہ ریاست پر مسلط ظالم بھارتی فوج کشمیری خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عفت مآب خواتین کی عزتیں پامال کر رہی ہے۔ ان حالات میں یورپی پارلیمنٹ میں منظور شدہ قرار داد میں اگرچہ کشمیر اور مسلمان اقلیت کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم قرار داد میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں کے خلاف نسلی و مذہبی تشدد کے حوالے سے یہ قرار داد یقینا ایک مثبت پیش رفت ہے جس کا خیر مقدم کیا جائے گا تاہم یہ پیش رفت اس وقت تک ادھوری رہے گی جب تک قرار داد میں ذکر کی گئی آزدانہ تحقیقات کا باقاعدہ اہتمام نہیں کیا جاتا اور قرار داد کی روشنی میں یورپی یونین کے رکن ممالک بھارت سے تجارت اور شراکت داری کے تمام شعبوں کو انسانی حقوق سے منسلک کر کے بھارت پر پابندیاں عائد نہیں کرتے۔ پاکستان جہاں انسانی حقوق کی صورت حال بھارت سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور اقلیتیں ہر طرح کے خوف سے آزاد پر امن ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہیں، اسے اگر محض الزامات اور خدشات کی بنیاد پر طویل عرصہ تک ایف اے ٹی ایف کی اذیت ناک نگرانی سے گزارا جا سکتا ہے، ایران، افغانستان اور دیگر کئی ممالک پر انسانی حقوق کے نام پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں تو بھارت میںانسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالی اور اقلیتوں پر ناروا مظالم اور جبر کے ماحول کے باوجود یہ پابندیاں کیوں عائد نہیں ہونا چاہیں جب کہ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر کئی عالمی تنظیمیں اپنی رپورٹوں میں بار ہا بھارت میں انسانی حقوق کی ناگفتہ بہ صورت حال اور اقلیتوں پر ہندو اکثریت کے مظالم کی تصدیق کر چکی ہیں۔ اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ یورپی یونین کے رکن اور دیگر مغربی ممالک یورپی پارلیمنٹ کی قرار داد کی روشنی میں بھارت کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات اور پابندیوں کا باقاعدہ اعلان کریں۔