چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے آخری ہفتے

11074

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بطور چیف جسٹس آخری ایام کا آغاز ہو گیا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ جب اس کے ملک کے کسی جج کا نام لیا جائے تو گردنیں احترام سے جھک جائیں۔ ان کو دیکھتے ہی لوگ باادب کھڑے ہو جائیں۔ یہ احترام اور ادب معاشروں کے مہذب ہونے کی علامت اور معاشروں کا حسن ہوتا ہے۔ اس بات کا اظہار کہ لوگ معا شرے میں انصاف چاہتے ہیں اور جو افراد انہیں انصاف مہیا کرتے ہیں وہ ان کی نظر میں قدرو منزلت کے مستحق ہیں۔ مہذب ہی نہیں غیر مہذب معاشروں میں بھی منصف مزاج لوگ عزت واحترام کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔ معاشرے میں عدلیہ اور ججوں کا احترام اس بات کا اظہار ہے کہ لوگوں کو انصاف مل رہا ہے اور جہاں عدلیہ اور ججوں کا نام سنتے ہی لوگ احترام سے عاری جذبات کا اظہار کرنے لگیں، ان کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ گالیوں پر مبنی یا گالیوں سے قریب ہوں، نظام عدل کے بارے میں ان میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہوتو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس معاشرے میں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے اور نظام عدل اور جج صاحبان انصاف کی عملداری سے دور ہیں۔ دوسال پہلے امریکا کے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت جو فہرست جاری کی گئی تھی اس میں پاکستان 128 ممالک کی فہرست میں 118 ویں نمبر تھا۔ یہ نمبر بھی ایک تکلف ہی ہے سچ تو یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی کی رینکنگ میں ہم کہیں بھی موجود نہیں۔

کسی بھی چیف جسٹس کی گراوٹ کے لیے اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ اس کے رحجانات، ذہنی ساخت اور مقدموں کے فیصلوں کے بارے میں پیش گوئیاں ہونے لگیں اور بعد میں وہ پیش گوئیاں درست بھی ثابت ہوں۔ اس کے متنازع تبصرے بیٹھکوں اور میڈیا کے ٹاک شوز میں زیر بحث آئیں۔ سیاسی جماعتوں اور لیڈروں سے اس کی وابستگی ڈھکی چھپی نہ ہواور وہ خود بھی اس کا اظہار کرتا ہو اور اس کے فیصلوں میں بھی نظر آتی ہو۔ اس پر عمران دار جج کی پھبتی چسپاں ہو اور وہ اپنے تبصروں اور فیصلوں سے اسے درست ثابت کرتا چلا جائے۔ پاکستان میں حکومت چلانے کے لیے کابینہ کی میٹنگیں ہوتی ہیں، دفاعی معاملات دیکھنے کے لیے کور کمانڈرز کانفرنسیں ہوتی ہیں لیکن چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے دور میں عدالتی معاملات چلانے کے لیے فل کورٹ اجلاس نہیں ہوسکے۔ اگر ہوئے بھی تو اتنے کم کہ کسی کو یاد نہیں۔ سب کچھ چیف جسٹس کی صوابدید پر ہی چلتا رہا۔

نہ جانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ججوں کو آئینی تقاضوں کو مقدم رکھتے ہوئے سپاٹ چہروں، غیر جانبدارانہ انداز میں فیصلے صادر کرتے ہوئے دیکھا ہے یہ بھی پاکستان میں ہوا ہے کہ چیف جسٹس کرپشن کیس میں ملوث ملزم کو دیکھ کر کہے ’’ویلکم خان صاحب! آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘‘ اور ساتھ ہی مشورہ دے کہ ’’بے شک آپ کو مخالفین پسند نہیں لیکن ان کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی بات چیت کریں‘‘۔ وہ ملزم کو رہا بھی کردے اور اسے گھر جانے کی اجازت بھی نہ دے اور عدالت عظمیٰ کے ریسٹ ہائوس میں رات گزارنے اور آٹھ دس دوستوں سے گپیں لگانے کا حکم نمامشورہ دے۔

ایک اچھے جج سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سوشل نہ ہو۔ اس کی ملاقاتیں محدود اور بہت محدود ہوں۔ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران وہ ایسے لوگوں سے ملنے سے اجتناب کرے جو اس کی رائے کو متاثر کرسکیں یا اس کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکیں حتی کہ وہ اخبار پڑھنے سے بھی گریز کرتا ہو۔ پاکستان میں عدلیہ بحالی تحریک سے پہلے بیش تر ججوں کے رویے میں یہ احتیاط پائی جاتی تھی۔ یہ عدلیہ بحالی تحریک تھی جب ججوں کو سیاست دانوں کی طرح تقریر کرتے، سیاست دانوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے لوگوں سے گھلتے ملتے اور انٹرویوز دیتے دیکھا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کورٹ روم میں صحافیوں کو دیکھتے ہی ججوں کی ریمارکس دینے کی صلاحیت کو پر لگ جاتے ہیں۔ جج صحافیوں سے ملنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے حتی کہ ہم خیال یوٹیوبرز بھی اب ان کی ملاقاتوں کے دائر ے میں شامل ہوگئے ہیں۔

کئی دن پہلے یوٹیوبر سے چیف جسٹس صاحب کی ملاقات کی خبر آئی تو حیرت ہوئی کہ یوٹیوبرز سے ملاقات کی چیف جسٹس صاحب کو کیا ضرورت پیش آگئی؟ کچھ نہ کچھ تو اس کے پس منظر میں ہوگا؟ کیا یہ ملاقات ہونی چاہیے تھی؟ پھراس ملاقات کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں وہ بھی حیران کن تھے جن میں چیف جسٹس صاحب یوٹیوبرز سے ساتھی ججوں کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے۔ پنجاب اور پختون خوا اسمبلیاں توڑنے کی عمران خان کی حماقت پر تبصرہ کررہے تھے کہ عمران خان نے سیاست سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے۔ اسمبلیاں توڑنا اس کے مفاد میں نہیں تھا۔ یہ عمران خان کی حماقت تھی یا عقل مندی سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس کو ایک سیاسی معاملے کا تجزیہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ نو مئی کے واقعات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ان واقعات کی وجہ سے عمران خان مشکل میں ہیں؟ یہ تبصرے کسی ایسے ویلے آدمی کے لگ رہے ہیں جسے کرنے کو کوئی کام نہ ہو۔

کچھ عرصے سے پاکستان کے چیف جسٹس صاحبان کی سرگر میاں ملاحظہ فرمائیں تو لگتا ہے انہیں ہر غیر متعلقہ کام سے دلچسپی ہے سوائے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سرگر میاں دیکھیں تو حیرت ہوتی تھی۔ ڈیم بنا رہے ہیں اس کے لیے چندہ مہم چلارہے ہیں، میٹنگیں کررہے ہیں، تقاریر فرما رہے ہیں، اسپتالوں کے معائنے ہورہے ہیں، جیلوں کے دورے جاری ہیں، منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں پر چھاپے مارے جارے ہیں، خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کی سرپرستی فر مائی جارہی ہے۔ اگر کوئی کام نہیں ہورہا تو وہ انصاف کی فراہمی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائر منٹ میں بھی چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ جو لاکھوں مقدمات عدالت عظمیٰ میں پڑے سڑ رہے ہیں انہیں تو چھوڑیے ان ہفتوں میں کم ازکم وہ ان مقدمات کے فیصلے تو کرہی سکتے ہیں جن کا آغاز انہوں نے خود کیا جن میں سے ایک فوجی عدالت میں سویلینز کے ٹرائل کا معاملہ ہے۔ انہوں نے اس مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اس معاملے میں ان کے حوصلوں کی پستی کا باعث بنی ہے۔ انہیں جانے سے پہلے یہ داغ دھو کر جانا چاہیے۔ اسی طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے اور اس فیصلے پر اصرار کے باوجود 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس نہیں ہوسکے۔ جانے سے پہلے چیف جسٹس صاحب کو اپنے اس فیصلے کے آنر اور اعزاز کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔

جس عدلیہ میں ججوں کے درمیان گروہ بندی اور لابنگ ہوتو وہاںکم ہی انصاف کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں پچھلے ادوار میں بھی ججوں کے درمیان گروہ بندی پائی جاتی تھی لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں گروہ بندی کے جو مظاہر سامنے آئے ماضی میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔ سینئر ججوں خصوصاً جسٹس فائز عیسیٰ کو کسی بھی بنچ کا حصہ بنانے سے وہ مسلسل احتراز کرتے رہے ہیں۔ ان کے زیادہ تر فیصلے ان ہم خیال ججوں پر مبنی بینچوں کے مرہون منت تھے جن کے نام سامنے آتے ہی لوگ فیصلے کے بارے میں جان لیتے تھے۔ اہم ترین معاملات میں عدالت عظمیٰ کا فل بینچ بنانے سے وہ اجتناب کرتے رہے۔ سینئر ساتھی ججوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات کبھی کچھ زیاد اچھے نہیں رہے۔ ان کے دور میں یہ گروپنگ اتنی پختہ ہوئی ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی اس کے ختم ہونے کے امکان نہیں۔ کاش انہیں احساس ہوتا کہ وہ کیا ورثہ چھوڑ کر جارہے ہیں؟