اللہ کے ولی

1079

عام لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اللہ کا ولی بہت ہی منفرد شکل و صورت کا انسان ہوتا ہوگا۔ اس کا لباس عام انسانوں سے بہت مختلف ہوتا ہوگا۔ وہ جب بھی کسی سے گویا ہوتا ہو گا تو بات کے آغاز و اختتام پر الحمد اللہ، سبحان اللہ اور اسی قسم کے اور کلمات ضرور ادا کرتا ہوگا، ہاتھوں میں بڑی ساری تسبیح، جیب میں مسواک، گلے میں مالائیں، سر پر بڑی ساری پگ، ناف سے بھی نیچے آتی ہوئی ڈاڑھی اور نہ جانے کیا کیا علامات اس کے ولی ہونے کی نشانیوں میں شمار کی جانے لگتی ہیں۔ کون اللہ کا ولی ہے، اصل میں تو اس کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم انسان تو بس کسی کی ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کسی کے دل کے اندر جھانک تو نہیں سکتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے وہ بندے جو واقعی اللہ کے ولی کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں ان کے جسم کے چاروں جانب کوئی بھی ایسی نشانی گردش نہیں کر رہی ہوتی جس کو دیکھ کر کوئی بھی فرد اس بات کا دعویٰ کر سکے کہ اس نے واقعی کسی اللہ کے ولی کو دیکھا ہے لیکن بعض اوقات کوئی عام سا آدمی بھی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کر جاتا ہے کہ آپ تشکرانہ اشکوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ’’میں نے اللہ کے وکیل کو دیکھا ہے‘‘۔

زمانہ طالب ِ علمی کی بات ہے، میں صدر کراچی سے لانڈھی کی جانب جا رہا تھا۔ جماعت ِ اسلامی کی ایک خاتون نے اپنی کوئی کتاب پرنٹ کروائی تھی جس کو وصول کرنے کے بعد میں پلاسٹک بیگ میں سارے نسخے بند کرنے کے بعد ان ہی کے حوالے کرنے جا رہا تھا۔ شدید بارش ہو کر تھم ضرور چکی تھی لیکن رم جھم مسلسل لگی ہوئی تھی۔ ملیر ندی کا وہ پارٹ جو کورنگی اور ڈیفنس سے ہوتا ہوا سمندر میں جا کر گرتا ہے، وہ اپنی آب و تاب کے ساتھ گزر رہا تھا۔ شدت میں کمی آ جانے کے بعد میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ اس حصے کو عبور تو ضرور کر لیا لیکن میری موٹر سائیکل ندی کے پار اترنے کے بعد اسٹارٹ ہونے سے انکاری ہو گئی۔ میری عمر کا ایک نوجوان میری مشکل کو سمجھ کر رک گیا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک وہ اور میں مسلسل کوشش کرتے رہے کہ موٹر سائیکل کا دماغ کسی طرح درست ہو جائے۔ میں نے نہ جانے کتنی مرتبہ اس سے کہا کہ آپ چلے جائیں لیکن وہ ہر مرتبہ یہ جواب دیتا کہ میں آپ کو تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اگر موٹر سائیکل پھر بھی اسٹارٹ نہیں ہوئی تو میں آپ کی موٹر سائیکل کو ٹوہ تو ضرور کر سکتا ہوں۔ آخر موٹر سائیکل اسٹارٹ ہو ہی گئی تو میں نے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر اور بھی حیرت ہوئی کہ اسے تو میری مخالف سمت جانا تھا۔ جاتے جاتے بس اس نے اتنا کہا کہ اگر آپ کسی کو کسی بھی مصیبت میں دیکھیں تو جتنا ہو سکے اس کی مدد ضرور کریں، یہی میرے تعاون کا صلہ ہوگا۔

میرے ایک آفیسر تھے۔ کلین شیو۔ میں جب بھی ان سے ضروری ڈاکومنٹس دستخط کرانے جاتا تھا تو اکثر یہ جان کر سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ وہ پہلا قلم اپنے جیب میں رکھنے کے بعد دوسرا قلم اٹھاتے اور دستخط کرنے کے بعد اسے قلم دان میں رکھ کر پہلا قلم جیب سے نکال کر پھر سے لکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ ایک دن سبب پوچھا تو فرمایا کہ میں ذاتی قلم سے سرکاری کاغذات پر دستخط نہیں کرتا اور سرکاری قلم کبھی اپنے ذاتی کام کے لیے استعمال نہیں کیا کرتا۔

بہاولپور کی بات ہے، پاکستان اس وقت بنا ہی بنا تھا، تقریباً سارے لوگ ہی غریب ہوا کرتے تھے، خصوصاً جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے ان کی حالت تو بہر صورت بہت ہی ناگفتہ بہ تھی، میرے ماموں کچھ دنوں سے بہت ہی تنگ دستی کا شکار تھے۔ کار و بار کا آغاز تھا جس کو چل نکلنے میں بہر حال کچھ مدت در کار تھی۔ آج کا دن تو شاید بہت ہی آزمائش والا تھا۔ بازار میں اپنی دکان پر بیٹھے کسی معجزے کے منتظر تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک صاحب آئے جو ہر لحاظ سے ایک عام سے انسان نظر آتے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ کوئی چیز خریدیں گے لیکن انہوں نے مجھ سے آکر بس اتنا کہا کہ جو مانگو گے ملے گا۔ کہنے لگے میں نے عجیب سے ہنسی کے ساتھ کہا کہ بیس روپے مل جائیں تو میری بہت ساری مشکلات دور ہو جائیں گی۔ خیال تھا کہ وہ دکان کی اشیا میں سے کسی چیز کا سودہ کریں گے لیکن اس نے بیس روپے جیب سے نکالے، میرے ہاتھ پر رکھے اور کچھ لیے یا کہے بغیر آگے بڑھ گیا جبکہ میں اسے روکتا ہی رہ گیا۔

مکان کو خریدے ہوئے سات سال ہو چکے تھے۔ جس پراپرٹی والے سے لیا تھا وہ ایک عام سا آدمی تھا۔ جن کا تھا انہوں نے ایچ بی ایف سی سے قرض لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنے اسی مکان کا سودا ایک اور پارٹی سے کر دیا تھا۔ ایچ بی ایف سی سے اصل فائل نکالنی تھی اس لیے کہ میں نے تمام تر واجبات جمع کرا دیے تھے۔ لیکن جب میرے پاس موجود ڈوکومنٹس کی جانچ کی گئی تو کچھ ضروری کاغذات غائب تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں آسمان سے بغیر کھجور میں اٹکے زمین پر آ پڑا ہوں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے وہ کاغذات پراپرٹی ڈیلر کے پاس رہ گئے تھے۔ منفرد سا سیل فون نمبر ہونے کی وجہ سے یاد رہ گیا تھا۔ میں نے ڈائل کیا تو خوش قسمتی سے وہ سن بھی لیا گیا۔ میری بات سن کر اس نے اپنا موجودہ پتا بتایا۔ پہنچا تو اس نے کہا کہ حبیب صاحب کچھ کہا نہیں جا سکتا اس لیے کہ کئی سال سے میں پراپرٹی کا کام بالکل ہی ترک کر چکا ہوں، پھر بھی میں اپنے کسی پرانے ریکارڈ میں تلاش کرکے دیکھوں گا۔ اگلے دن مجھے اس نے اپنے نئے پتے پر بلا کر کاغذات میرے حوالے بھی کر دیے اور معذرت بھی طلب کی۔

ایوب خان کے زمانے کی بات ہے، سخت ڈکٹیٹر شپ کا زمانہ تھا۔ بولنے والی زبانیں کھینچ لی جاتی تھیں اور سچ کہنے والوں کی شکلیں ناقابل ِ شناخت بنادی جاتی تھیں لہٰذا اسلامی جمعیت ِ طلبہ کا احتجاج، وہ بھی کراچی جیسے غداروں کے شہر میں کیسے برداشت کیا جا سکتا تھا۔ حکومتی ظلم و تشدد کے خلاف کیے جانے والے سخت احتجاج کے بعد جب کراچی کی مشہور مسجد، مسجد ِ آرام باغ میں طلبہ نمازِ عصر پڑھنے میں مصروف تھے، نیم عسکری دستے نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ پھر ہوا یہ کہ جس کے جہاں سینگ سمائے بھاگ نکلا لیکن چاروں جانب کھڑے نیم فوجی دستے نے اس بلا کا تشدد کیا کہ مسجد کا ہال ہو یا باہر کا پختہ صحن، خون سے رنگین ہو گیا۔ میں از خود بھی زد میں آیا ضرور لیکن ضربِ کاری سے محفوظ رہا۔ ہنگامہ ختم ہوا تو صدر کراچی سے بس میں بیٹھنے کے لیے جب میں نے اپنی جیب پر نظر ڈالی تو پائی پیسہ تک نہیں تھا۔ دل ایک دم پریشان ہو کر رہ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ منزل بھی پکی پکی 9 میل دور تھی۔ خوداری گوارہ نہیں کرتی تھی کہ کنڈکٹر مجھ سے کرایہ مانگے اور میں شرم سے سر جھکالوں۔ اسی پریشانی کے عالم میں کھڑا ہوا تھا کہ ایک بھکارن بچی نے مجھ سے چند سکوں کا سوال کر دیا۔ سوال سن کر بے اختیار میرے منہ سے یہ نکلا کہ آج تو میں خود بہت محتاج ہوں، یہ سن کر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس نے اپنی مٹھی میں دبے جتنے بھی سکے تھے میری جیب میں ڈال دیے اور خود اس تیزی کے ساتھ بھاگ نکلی کہ میں اُسے باوجود کوشش تلاش نہ کر سکا۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کسی نے پوچھا کیا آپ نے ولی اللہ دیکھا ہے، آپ نے فرمایا کہ میں کل ہی ایک ولی اللہ سے مل کر آ رہا ہوں۔ کہنے لگے کہ ریلوے اسٹیشن پر اترا تو بہت سے قلی سامان اٹھانے کے لیے لپکے لیکن میری نظر ایک ایسے قلی پر پڑی جو نماز پڑھ رہا تھا۔ فیصلہ کیا کہ سامان اسی سے اٹھوانا ہے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ روزی کے وقت تم نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسرے قلی سامان اٹھانے میں لگے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ میں اس ربّ کی عبادت میں مشغول تھا جو میرے حصے کی روزی کا انتظام ضرور کر دیتا ہے تو میں اس کی عبادت میں کس لیے تاخیر کروں۔ آپ خود ہی سوچیں کہ آخر آپ کو میرے لیے کس نے روکا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ کے ولی کی شکل و صورت انسانوں جیسی ہی ہوتی ہے، اس کے کوئی سینگ نہیں ہوا کرتے۔ وضع قطع یا لباس پر نہیں جائیں، لوگوں کے سلوک اور کردار پر نظر رکھیں۔ یقین مانیں ولی اللہ درختوں کی شاخوں پر الٹے لٹکے، کسی مزار پر مالائیں پہنے، صحراؤں میں دنیا والوں سے بہت دور گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے یا پہاڑیوں کے غاروں میں عبادتوں میں مشغول دکھائی دینے والے نہیں بلکہ آپ کے آس پاس گھومتے دکھائی دیں گے۔ بس اپنی آنکھیں ایسی بنالیں کہ وہ آپ کو نظر آنے لگیں۔