یہ جو تبدیلی سرکار تھی

898

تبدیلی‘ کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ایک نام ذہن میں آجاتا ہے‘ جس سے قاری یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب‘ ایک سیاسی جماعت کی بات ہوگی‘ نہیں جناب‘ ہمارا اس سیاسی جماعت یا اس کی حریف سیاسی قوتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ دونوں نورا کشتی کر رہے ہیں‘ ایک کے دور میں نواز شریف بیرون ملک گئے اور شہباز کے دور میں سب کچھ ہورہا ہے لیکن گرفتاری نہیں ہورہی‘ یہ بھی ہمارا موضوع نہیں ہے‘ ہمیں علم ہے ملک میں قانون بھی موجود ہے جس کے تحت گرفتاری لازم ہے اور پولیس بھی موجود ہے جس کو جا کر پکڑنا ہے‘ یہ کام جس دن ہونا ہوگا ہوجائے گا‘ کب ہوگا یہ بھی ہمارا موضوع نہیں ہے‘ ہمارا موضوع ہے کہ اس ملک کے خزانہ پر ڈاکا کس کس نے ڈالا؟ کس نے قرضے معاف کیے‘ کس نے کب کتنے افراد کو زیرو شرح سود پر یا بہت کم شرح سود پر قرض دیے‘ ہمیں سود پسند نہیں‘ نہ اللہ ایسی کوئی راہ دکھائے تاہم جب تک سود کا نظام اس ملک کی معیشت کا حصہ ہے تب تک اس پر گفتگو ہوتی رہے گی اور یہ موضوع ٹاک آف دی ٹائون رہے گا۔
وزارت خزانہ نے 2023 سے 2026 تک درمیانی مدت کے لیے قرض اسٹرٹیجی رپورٹ جاری کی ہے‘ رپورٹ کے مطابق 2026 تک جی ڈی پی گروتھ 5.5 فی صد مقرر کی گئی ہے، اس کے علاوہ مالی سال 2026 تک مہنگائی کی شرح 6.5 فی صد کی سطح پر کنٹرول کرنے اور مالی سال 2025 میں مہنگائی کی شرح 7.5 فی صد تک محدود کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ 5.0 فی صد اور آئندہ مالی سال تک مالیاتی خسارہ 5.1 فی صد تک محدود کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ رواں مالی سال 5.7 ٹریلین روپے قرض کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، مالی سال 2025 میں 5.5 ٹریلین روپے قرض کی ادائیگیاں کرنی ہیں، مالی سال 2026 اور مالی سال 2027 کے دوران قرض ادائیگیوں کا بوجھ کم ہو گا، قرض حاصل کرنے کے لیے بانڈز کا اجرا اور طویل مدتی پالیسی پر قرض لینا ترجیح ہو گی۔ فکسڈ شرح سود کی نسبت فلوٹنگ ریٹ پر قرض حاصل کیا جائے گا، بیرونی قرض ملکی مجموعی قرض کا 40 فی صد تک لیا جا سکے گا لیکن ایک اہم موڑ آیا ہے اس کھیل میں کہ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 3 ارب ڈالرز کے قرضے دیے جانے کے معاملے کا فارنزک آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا ہے‘ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حکم پر پی ٹی آئی دور حکومت میں منظور نظر افراد میں 3 ارب ڈالرز کے قرضے دیے جانے کے معاملے پر غور ہوگا‘ اور تحقیقات بھی ہوں گی۔
کمیٹی نے 19 اپریل کو اسٹیٹ بینک کو لکھا تھا کہ 3 ارب ڈالرز 620 لوگوں کو قرضہ دیا گیا، آپ نے جو قرضہ 5 فی صد پر دیا اس سے فائدہ کیا ہوا؟ آپ کی پالیسی اتنی اچھی تھی تو کشکول اور بڑا کیوں کیا؟ سیکرٹری خزانہ نے کمیٹی کو جواب دیا کہ یہ ری فنانس اسکیم تھی، یہ اسٹیٹ بینک کا مینڈیٹ ہے، اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کے ذریعے عملدرآمد کرایا تھا، یہ بینک اور کلائنٹ کے درمیان کی معلومات ہے۔ کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ وہ کون سے نیک لوگ تھے جن کے لیے یہ اسکیم متعارف کی گئی؟ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایاکہ یہ اسکیم مارچ 2020 میں ایک سال کے لیے کورونا کے بعد شروع کی، اس اسکیم میں کوئی فارن کرنسی شامل نہیں تھی۔ پھر سوال ہوا کہ صرف 620 لوگوں کے نام بتائیں، جن لوگوں نے فنڈ لیکر بدنیتی کی‘ جواب دیا گیا کہ 5 فی صد پر اس کو ریوائز کیا گیا، انڈسٹری اور مشینری کے لیے تھی، 85 فی صد سے زیادہ لینڈنگ پرائیویٹ بینکوں کی ہے، 42 فی صد قرضہ لینے والے ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہیں، ان میں 394 ارب روپے کی ادائیگی ہوئی ہے۔
کس قانون کے تحت اسٹیٹ بینک نے یہ فیصلہ کیا؟ لسٹ شائع کی گئی؟ جب جواب نفی میں ملا تو کمیٹی نے حکم دے دیا کہ تحقیقات ہوں گی وزارت دفاع کی طرف سے بھی انکوائری میں ایک بندہ شامل ہونا چاہیے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ آپ مناسب سمجھیں تو نام شائع کرنے کے بجائے ان کیمرا بریفنگ دے دیں۔ جس کے بعد ان کیمرا میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا گیا‘ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے والا یہ معاملہ بہت ہی حساس ہے‘ یہ قوم تک بات پہنچنی چاہیے کہ کس نے کتنا لوٹا ہے؟ ہمارے ملک میں احتساب کا بہت شور ہے‘ ماضی قریب میں جب ملک میں
ملک معراج خالد کی نگران حکومت تھی‘ نجم سیٹھی احتساب سیل کے سربراہ بنائے گئے‘ یہ قانون نافذ ہوا کہ جس جس نے بھی قرض لیا ہے اور واپس نہیں کیا اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے لیکن لابی اس قدر مضبوط تھی یہ فیصلہ ہی تبدیل کرالیا گیا‘ پھر ملک میں انتخابات ہوئے اور نواز شریف دوتہائی اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں آئے‘ نعرہ احتساب کا لگایا تھا تاہم یہ کام نہیں ہوسکا‘ بلکہ احتساب سیل میں ایک ایسے افسر تعینات ہوئے جنہوں نے کوٹیکنا کیس کی ہر دستاویز کی کاپی عدالت میں پیش کرنے سے قبل بے نظر بھٹو تک پہنچائی‘ جن کے ذریعے پہنچائی یہ کردار آج بھی حیات ہیں‘ چلیے یہ تو ماضی کی بات تھی بے نظیر بھٹو صاحبہ اب دنیا میں نہیں رہیں‘ لہٰذا آج کی بات کرلیتے ہیں تحریک انصاف کے دور میں وزیر خزانہ نے چھے سو افراد میں خزانے کا پیسہ ریوڑیوں کی طرح کیوں بانٹا؟ کیا سینیٹر شوکت فیاض ترین‘ کمیٹی میں یہ تفصیلات بیان فرمائیں گے؟ اور ہاں ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیں کہ احساس پروگرام میں کتنا گھپلا ہوا اور تحریک انصاف کے دور میں دیے جانے والے کراچی پیکیج کیا بنا؟