سوڈان کا بحران، جرنیلوں کی بالادستی کی جنگ

870

2011ء سے قبل افریقی خطے سوڈان کا شمار رقبے کے لحاظ سے عالم اسلام کے بڑے ملک کی حیثیت سے ہوتا رہا ہے۔ 2005ء میں جنوبی سوڈان کو خودمختاری دی گئی اور بالآخر 2011ء میں سوڈان کو دو لَخت کروا کر ’’جنوبی سوڈان‘‘ مغربی ممالک امریکا، فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک نام نہاد ریفرنڈم کے نتیجے میں سوڈان سے علٰیحدہ ہوکر ایک الگ اور خودمختار ملک بن چکا ہے۔ سوڈان میں 1983ء میں اسلامی شرعی قوانین متعارف کروایا گیا۔ تاہم اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد شمالی اور جنوبی سوڈان (جہاں کی اکثریت عیسائیوں پر مشتمل تھی) کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی اور یہ 22سال تک جاری رہی۔ اس دوران تقریباً 20لاکھ افراد مارے گئے اور یہ لڑائی جنوبی سوڈان کی علاحدگی اور ایک الگ ملک کے قیام پر منتج ہوئی۔ اس وقت سے سوڈان اسلامی ممالک میں رقبے کے اعتبار سے اوّل نمبر سے 9ویں پوزیشن پر آگیا۔ ماضی میں سوڈان ایک لمبے عرصے تک مستحکم اسلامی شناخت اور اس کے وسیع و عریض رقبے نیز نو پڑوسی مسلم ممالک کی قربت اور ایشیاء و افریقا کے اتّصال (ملاپ) پر واقع ہونے کی وجہ سے اہمیت حاصل رہی ہے۔ سوڈان کے ساحل دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایتھوپیا اور یوگنڈا سے دریائے نیل کے ذرائع سے گھرا سوڈان، جنوب میں (نیلے اور سفید دریائے نیل)، جنوب ہی میں جنگلاتی وسائل کا بڑا حصہ۔ کثیر تعداد میں تیل کے ذخائر کی موجودگی، معدنیاتی کانیں، خصوصاً سونے کی کانوں کے وسیع ذخائر بھی اس کی وقعت و منزلت کو دنیا میں نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادی راسخْ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے نزدیک اکیلا سوڈان تمام عرب دنیا کی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ سوڈان کے زیر زمین پانی کے وسائل افریقا میں سب سے زیادہ ہیں اور ایسی وسیع اراضی بھی ہے جہاں آج تک زراعت نہیں ہوئی۔

عالمِ اسلام کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ’’الاخوان المسلمون‘‘ کی سوڈانی شاخ ’’جبہُ المیثاق الاسلامی‘‘ 1964ء سے عالمی شہرت یافتہ اسلامی مفکر اور سیاستدان ڈاکٹر حسن ترابی مرحوم (1932ء – 2016ء) کی متحرک قیادت میں طلبہ و تعلیم یافتہ طبقات کے ذہن و دماغ پر حاوی تھی۔ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ حسن الترابی اخوانی تاریخ کے تیسرے ’حسن‘ ہیں۔ حسنِ اوّل: حسن البنا شہید، حسنِ ثانی: حسن الہضیبی اور حسنِ ثالث: حسن الترابی ہیں، یعنی خالص اور اصل سوڈانی حسن الترابی! مبصرین کے مطابق ڈاکٹر ترابی کی دینی تشریحات اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی واقع ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے سوڈانی اخوانی تحریک آئینی لحاظ سے 2 حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس تقسیم کا سہرا ڈاکٹر ترابی کے سیاسی حریفوں، روایت پرست حلقوں کے سر بندھتا ہے۔ ڈاکٹر حسن ترابی کے پیروکاروں میں شامل رہنے والے جنرل عمر البشیر نے 1989ء میں اسلام پسندوں کی مدد سے سوڈان میں اس وقت کے وزیر اعظم صادق المہدی کو معزول کرکے اقتدار پر غلبہ حاصل کیا۔ بعد میں عمر البشیر نے 30سال (1989ء تا 2019ء) مطلق العنانیت (ڈکٹیٹر شپ) کے ذریعے اسلام پسندوں کو بھی ہدف بنایا یہاں تک کہ اسلام پسندوں کو پابند سلاسل کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2013ء میں جب عرب ممالک میں ’’عرب بہار‘‘ کی تحریک کا آغاز ہوا تو سوڈان کے عوام بھی بشیر کی آمریت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آگئے لیکن انہیں وحشیانہ جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی سال بشیر نے متعدد فوجی جوانوں اور اسلام پسند کارکنوں کی گرفتاری کا حکم دیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے خلاف بغاوت کی سازش کر رہے تھے۔ القاعدہ کے روحِ رواں اسامہ بن لادن کی سوڈان میں پانچ سال تک سکونت کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سوڈان کا عالمی سیاست میں اپنا ایک مقام رہا ہے۔ مقام عروس جہاں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے اپنا اڈا بنا کر ایتھوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا تھا اور سوڈان کی سیکورٹی ایجنسیوں کو اس مشن کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔ ان تمام حقائق و واقعات سے سوڈان عصر حاضر میں ایک اور بڑے المیہ سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ 15اپریل 2023ء سے جاری سوڈان میں خونریز تنازع شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی مسلح افواج اور جنرل محمد حمدان دقلو کی قیادت میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے نیم فوجی دستوں کے درمیان خون ریز جنگ جاری ہے۔ دونوں افواج کے انضمام پر مذاکرات کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اس خونیں جنگ کا آغاز ہوا ہے۔ شدید لڑائی میں تقریباً ساڑھے 8سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سے اکثریت زیادہ تر عام شہریوں کی ہیں، جس کے نتیجے میں سوڈان میں ایک ممکنہ انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ لڑائی کا مرکز دارالحکومت خرطوم ہے لیکن دیگر علاقوں بالخصوص چاڈ سے متصل مغربی علاقے دارفور میں بھی شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ سوڈان کا دارالحکومت خرطوم فضائی حملوں، زمینی جھڑپوں، دھماکوں اور گولہ باری میں اچانک شدت آنے سے لرز اٹھا، اس سے ملحقہ شہروں بحری اور ام درمان کے کچھ حصوں میں رات بھر شدید گولہ باری ہوتی رہی۔ یہاں سوڈان کی افواج اپنے نیم فوجی حریفوں کو ہٹانے کی کوشش میں1ماہ سے زیادہ عرصے سے محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کئی دہائیوں سے بغاوتوں، جنگوں اور تنازعات کی تاریخ رکھنے والا ملک سوڈان میں نئے مسائل و مشکلات دوبارہ اس وقت منظر عام پر آئے جب ملک کے جنوب میں چند نسل پرستانہ جھڑپوں کے دوران کم از کم 16افراد کی جانیں گئیں اور مشرق میں ایک طاقتور گروپ نے فوج کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔ مہینے بھر سے جاری اس جنگ نے تقریباً 2لاکھ لوگوں کو ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے اور سوڈان کے اندر 7لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ جنسی تشدد میں اضافے کی تشویشناک رپورٹیں بھی آرہی ہیں، اس جنگی افراتفری میں معصوم بچے خاص طور پر نشانہ بن رہے ہیں۔ امدادی کاموں کے لیے سرگرم کارکنان کو متعدد حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ایک ایسا انسانی بحران ہے جس سے خطے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ تنازعات سے متاثرہ ملک سوڈان میں فوری امداد فراہم کرنے کے لیے 3ارب 3کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوگی اور رواں برس 10لاکھ سے زائد افراد کی پڑوسی ممالک نقل مکانی کا امکان ہے۔ خانہ جنگی کے سبب سوڈان میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جہاں جنگ سے پہلے ہی ہر 3 میں سے ایک شخص امداد پر انحصار کرتا تھا۔ سوڈانی اقتدار پر ہمیشہ سے ایک اشرافیہ کا غلبہ رہا ہے جو بڑی حد تک خرطوم اور دریائے نیل کے آس پاس کے نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں فریق مضبوط ہیں اور ان کے درمیان جنگ بہت مہنگی، خونیں اور طویل ہوگی۔ اگر دونوں فریق خرطوم میں جزوی فتح حاصل کر لیتے ہیں تب بھی ملک بھر میں جنگ جاری رہے گی۔

فوج اور سریع الحرکت فورسز (ریپڈ سپورٹ فورسز) کے درمیان لڑائی نے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بدامنی کو جنم دیا ہے۔ جس سے وسیع تر تنازعے کا خدشہ بڑتا جارہا ہے۔ یہ جنگ پورے خطے کو غیر مستحکم بنا سکتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کے لیے سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے پھر ایک بار مذاکرات کی پیش رفت کی جارہی ہے، فریقین کو مجبور بھی کیا جارہا کہ وہ فعال انداز میں مذاکرات میں شامل ہوں۔ سوڈان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے اور صہیونی ریاست کے ساتھ امن معاہدوں کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔ سوڈان کی سیاسی جماعتوں نے ملک کی عبوری حکومت کے اسرائیلی قابض ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے رجحان کو مسترد کردیا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں قائم عبوری حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی دباؤ مسترد کردے اور سوڈانی قوم کے فلسطینیوں کے حوالے سے اختیار کردہ موقف پر قائم رہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کا اسٹرٹیجک ہدف یہ ہے کہ خلیج عتبہ سے لے کر خلیج عدن تک اس کا اثر رسوخ ہو۔ اس لحاظ سے سوڈان جیسا بڑا اسلامی ملک اسرائیل کی آنکھ میں کھٹکتا رہا ہے۔ سوڈان کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک اور بات سامنے آرہی ہے کہ بین الاقوامی قوتوں کی سوڈان کی توانائی، دفاع، جنگلات، کان کنی، معدنیات اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ سوڈان سمیت یہ سارا خطہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران بدترین خانہ جنگیوں اور قتل وغارت کا شکار رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالم اسلام کے ممالک کو آگے قدم بڑھانا ہوگا۔ ورنہ اس کا راست نقصان عالم اسلام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ عالم اسلام کے لیے یقینا سوڈان کا بحران لمحہ فکر ہے۔ سوڈان کا معاملہ بھی پاکستان جیسا ہی ہے، جس طرح پاکستان میں جمہوری سیاسی پارٹیوں کے ذاتی مفادات کے نتیجے میں پھیلی ہوئی بدامنی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے، ٹھیک اسی طرح سوڈان میں سیاسی مفادات کی جنگ میں بے بس عوام کا ہی خون بہایا جارہا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ سوڈانی بحران کے پس پردہ کوئی اصولی اور نظریاتی وجہ نہیں ہے بلکہ اقتدار اور ذاتی مفادات کے محرکات وابستہ ہیں۔ بیرونی طاقتوں کی حمایت یافتہ دو جرنیلوں کی اقتدار پر بالادستی کی جنگ نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اقتدار کے حریس جرنیلوں کو بھی سوڈانی عوام پر رحم کا معاملہ کرتے ہوئے اپنی انانیت و بالادستی کی بھوک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں سوچنا ہوگا۔