من چاہا، بر

772

وطن عزیز کی لڑکیوں اور اداروں کے سربراہان میں ایک قدر مشترک یہ بھی پائی جاتی ہے کہ لڑکیاں من چاہا، بر چاہتی ہیں اور اداروں کے سربراہان من چاہا فیصلہ چاہتے ہیں، مگر کوئی یہ جاننا نہیں چاہتا کہ قوم کیا چاہتی ہے؟

یادش بخیر گزشتہ دنوں عزت مآب چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ ایسا تو بھارت میں بھی نہیں ہوتا، باالفاظ دیگر محترم چیف جسٹس نے بھارت کے نظام عدل پر اطمینان کا اظہار فرمایا تھا، کاش کبھی کوئی عادلِ اعظم پاکستان کے نظام عدل پر بھی اطمینان کا اظہار کرے، نظام عدل کی موجودہ کارکردگی میں تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ وطن عزیز کی آب و ہوا اور موسم کی خاصیت یہی ہے کہ یہاں ہر بااختیار شخص کو ہرا ہرا ہی دکھائی دیتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے نظام عدل میں تو ایسے بہت سے مقدمات دائر ہوتے ہیں جن کی سماعت سے پہلے یہ تحقیق کی جاتی ہے کہ مقدمہ درست ہے یا جعل سازی پر مبنی ہے کیونکہ وہاں ہر شہری کو قابل احترام سمجھا جاتا ہے، ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ مدعی کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وکیل کی فیس دینے کا اہل ہے یا نہیں، جو شخص وکیل کی فیس دینے کی استطاعت رکھتا ہو وہ کسی بھی شخص کو عدالت کی غلام گردشوں میں تاحیات گردش کرنے پر مجبور کرسکتا ہے، ہم نے ایک جج صاحب سے پوچھا تھا کہ جعلی مقدمات کی سماعت کیوں کی جاتی ہے کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارے جج صاحبان لفظوں کے ہیر پھیر کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور نہ واقعات اور حالات کے بین السطور کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے ہیں، جج صاحب نے کہا تھا کہ جب بھی کوئی مقدمہ ان کے سامنے آتا ہے، وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتے ہیں کہ مقدمہ درست ہے یا غلط ہے مگر ہماری قانونی مجبوری یہ ہے کہ ہم ایسے مقدمات کو شہادتیں سنے بغیر خارج نہیں کر سکتے کیونکہ مخالف وکیل سیشن کورٹ میں اپیل دائرر کر دے گا اور وہ دو تین سال تک مقدمہ کو لٹکانے کے بعد واپس سول کورٹ میں لے آئے گا یوں مدعا علیہ نسل در نسل عدالتوں کے دھکے کھانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں شہریوں کے لیے دہرا نظام عدل ہو، حالانکہ من حیث القوم ہم اس حقیقت سے واقف ہیں جب کوئی ملک شہریوں سے دہرا سلوک کرتا ہے تو اس کی سالمیت برقرار نہیں رہتی، سانحہ مشرقی پاکستان اسی دہرے سلوک کا نتیجہ ہے، کیونکہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو دوسررے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔

عزت مآب چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علم میں یقینا یہ حقیقت ہو گی کہ ایسا بھارت میں بالکل نہیں ہوتا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے، قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جعلی مقدمات کی سماعت کر کے دوسرے فریق کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی جاتی ہے، دنیا کی کسی عدالت میں بغیر ثبوت کے مقدمات کی سماعت نہیں کی جاتی جبکہ وطن عزیز میں اکثر مقدمات جعل سازی پر مبنی ہوتے ہیں خاص کر دیوانی مقدمات۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جعل سازوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی مگر پاکستان میں جعلی مقدمات کی سماعت جج صاحبان کی مجبوری ہے کیونکہ کسی جعلی مقدمہ کی سماعت سے انکار کرنا جج کے لیے وبال جان بن جاتا ہے وکلا ان کی عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور بار کونسل ان کے تبادلے کا مطالبہ کر دیتی ہے، مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے تو ہڑتال کر دی جاتی ہے، مگر دنیا کے کسی دوسرے ملک میں شاید ہی ایسا کچھ ہوتا ہو، بھارت میں بھی ایسا نہیں ہوتا، یہ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ بار کونسل کے احکامات کی تکمیل کرنے پر مجبور ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بار کونسل سے وابستہ وکلا جج صاحبان کی بہت سی ایسی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں جو وکیل کی پیش قدمی کو پیش دستی بنا دیتے ہیں۔ وطن عزیز کا نظام عدل اس وقت تک انصاف فراہم نہیں کر سکتا جب تک عدالتیں بار کونسل کی تابع فرمان رہیں گی، عزت مآب چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت میں ایسا کیوں نہیںہوتا؟ وہاں کوئی جونیر جسٹس چیف جسٹس کا حلف اٹھانے کے حکم پر مستعفی ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔