حقیقت پر مبنی داستانِ آزادی

1110

لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بنا بنایاپاکستان مل گیا ہے اس لیے ہمیں اس کی قدر نہیں ہے۔ یہ بات کسی قدر درست ہے لیکن ایک تسلسل کے ساتھ قوم کو پاکستان کی تاریخ سے کاٹ کر رکھا جارہا ہے۔ اس وجہ سے بھی لوگ پاکستان کی تحریک اس وقت کے حالات اور ان اسباب سے بھی ناواقف ہیں جو ایک علٰیحدہ مملکت کے قیام کا سبب بنے اور ناواقفیت کی وجہ بھی مسلسل عمل ہے۔ نصاب سے اسباق کا غائب کیا جانا، ایسے اساتذہ کا اوپر آجانا جو قیام پاکستان کو سرے سے غلط ہی سمجھتے تھے اور اسلامی نظریہ اور نفاذ اسلام تو ان کے خیال میں تھا ہی نہیں۔ لیکن ابھی ہمارے بہت سے گھرانوں میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا یا اپنے بڑوں سے پوری کہانی سنی ان کی آب بیتیوں کو اگلی نسل تک منتقل کیا۔ ایسے ہی کام ممتاز مصنفہ فریحہ مبارک اور کچھ اور لوگوں نے بھی کیے ہیں۔ سردست فریحہ مبارک کی مختصر سی کتاب ’’حقیقت پر مبنی داستان آزادی‘‘ پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نانی سے منتقل ہونے والی اس داستان کو نہایت خوبصورتی سے قارئین تک منتقل کیا ہے۔ بات تو ان کی نانی کی بہن کی ہے لیکن یہ تنہا فریحہ کی بڑی امی (نانی) کی کہانی تو نہیں ہے۔ ایسی ہزاروں داستانیں ہمارے اردگرد برس ہا برس رہیں لیکن پاکستان بنتے ہی ہمیں پاکستان کے مقصد سے غافل کرکے پیٹ کا بندہ بنادیا گیا پھر کون ان داستانوں پر توجہ دے اب تو روز کی دال روٹی کا ذکر ہی ہوتا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہورہا ہے۔ سری لنکا بن رہا ہے اثاثے بک جائیں گے ایٹم بم چھن جائے گا ایسے میں نظریہ کون یاد دلائے۔

جو حال پوری قوم کا ہے ہم بھی اس قوم سے الگ تو نہیں کچھ اثر تو ہم پر بھی ہوا ہے۔ چناں چہ کئی ماہ سے رکھی ہوئی یہ مختصر سی کتاب فکر معاش، روز مرہ مصروفیات کی نذر ہوگئی اور پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جب پڑھنے بیٹھے تو شرمندگی ہوئی اتنے اہم موضوع کو اٹھایا گیا ہے جو ریاست کا کام تھا جس کے ذمے یہ فرض تھا کہ قوم کی ہر نسل تک پاکستان کے قیام کے مقاصد منتقل کیے جاتے لیکن ریاست تو اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ فریحہ مبارک نے اپنی بہت سی ذمے داریوں کے باوجود قوم کا ایک قرض ادا کیا ہے۔ کم از کم وہ یہ کہہ تو سکتی ہیں کہ میں نے قیام پاکستان کے وقت پیش آنے والے واقعات، اس ملک کے قیام کے اسباب اور نظریے کے بارے میں اپنی ذمے داری ادا کردی ہے۔

حقیقت پر مبنی داستان آزادی میں فریحہ نے اپنے خاندان کی کہانی ضرور بیان کی ہے لیکن یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے انہوں نے پاکستان بننے کے عمل میں ان لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا حوالہ دیا ہے جس قسم کے واقعات ان کے ننھیال اور ددیال میں پیش آئے، کم و بیش ایسے ہی ہمارے اور ہمارے سسرالیوں کے خاندان میں پیش آئے۔ اگر بڑی امی اپنی چھوٹی بہن کو یاد کرکے روتی ہیں تو آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے شہید ہوئے، جوان بیٹے کی گمشدگی کے ساتھ ہی کوچ کا حکم آگیا اور بیٹے کے انتظار میں عمر گزار دی۔ ان سب کا جرم ایک تھا اسلام کے نام پر مسلمانوں کی الگ ریاست کے حق میں آواز بلند کرنا اور اس ریاست کی طرف ہجرت کرنا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ حال کردیا گیا کہ

گلستاں کو جب بھی لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں یہ اہل چمن
یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں

چناں چہ پاکستان بنتے ہی قوم کو اس نظریے سے دور کرنے کی سازش شروع کردی گئی۔ اس داستان آزادی میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قیام پاکستان کے اصل مقصد سے ہندو قوم پرستوں کو کس قدر نفرت تھی ان کی یہ نفرت آج بھی برقرار ہے۔ گاہے گاہے وہ ہندوستان میں مسلمانوں سے اس کا بدلہ لیتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان میں یہ شعور بیدار ہے کہ یہ وطن کیسے حاصل کیا گیا تھا۔ نہیں اسے فکری اور عملی طور پر بھلایا جارہا ہے۔ فریحہ مبارک نے پاکستان آنے والی ٹرین کا ذکر کیا ہے جس کا ایک مسافر بھی نہیں بچ سکا تھا۔ شاید یہ وہی ٹرین ہو جو ہمارے والد کی ٹرین کے بعد آئی تھی کیونکہ ان سے اگلی ٹرین پر بم مارے گئے تھے اور پچھلی ٹرین کے لوگوں پر چلتی ٹرین میں حملے کیے گئے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے نظریہ پاکستان کی ٹرین کی پٹڑی ہی بدل دی ہے۔ اور اس کے مسافروں کو اسی طرح خاموش کرایا گیا ہے جیسے انتہا پسندوں نے پاکستان بنانے والوں کو خاموش کرادیا تھا۔ آج اس عظیم ہجرت کو گالی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ پہلے اسی ہجرت کے نام پر سیاست کی گئی اور سیاست بھی نفرت کی۔ اسی نفرت نے ہجرت کرنے والے بانیان پاکستان کو اپنے ہی بنائے ہوئے ملک میں اجنبی بنادیا۔ ہجرت کو سیاست بنانے والوں نے پورے ملک کی ہر قومیت سے دشمنی پیدا کی خود بیرون ملک جائدادیں بنائیں یا ڈیرہ ہی جمالیا۔ اب کبھی کبھی دانہ چگنے پاکستان آجاتے ہیں اور دانہ چگ کر پھر سے اُڑ جاتے ہیں۔

حقیقت پر مبنی داستان آزادی ایک ایسی مختصر دستاویز ہے جس نے پاکستان کی تاریخ کے بہت سے باب کھول کر رکھ دیے۔ اگر صرف ان تصاویر کو غور سے دیکھ لیں جن میں لٹے پٹے لوگ پاکستان آرہے ہیں، ٹرینوں سے لاشوں کے سوا کچھ نہیں نکل رہا اور راستے میں سارا سامان لٹ گیا۔ اس منظر کو تصور میں لائیں تو شاید تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کی خاطر قربانیوں کی عظمت ذہن میں آجائے۔ ایک تاثر بہت عام ہے کہ بہت سے بنیئے جولاہے پاکستان آکر انصاری، سید اور شیخ بن گئے لیکن اس حقیقت کو سب نے فراموش کردیا کہ چالیس کمرے والی حویلی چھوڑ کر بھی لوگ پاکستان آئے اور تمام بہن، بھائیوں، والد، والدہ کو چھوڑ کر دوسری ٹرین سے بھی پاکستان آئے۔ خود ہمارے والد تقسیم کے وقت بھی لاکھوں کی جائداد کے حصے دار تھے لیکن ایک چیز بھی ساتھ نہیں لائے اور جب سرکاری ملازمت کی وجہ سے کلیم فارم بھرا تو شہداد کوٹ میں زمین الاٹ کردی گئی۔ اس اللہ کے بندے نے پوری زندگی کبھی شہداد کوٹ کا رُخ ہی نہ کیا۔ ان کے انتقال کے وقت بڑے بھائی نے ہمیں یہ بات بتائی کہ ابا ایک روز چچا کو بتارہے تھے جو انڈیا سے آئے ہوئے تھے کہ میں نے تو کلیم نہیں لیا۔ کاغذ تو ضرور بھرا تھا۔ فریحہ اشرف اس تحریر اور اس قیمتی دستاویز کی تیاری پر بہرحال مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اسے نئی نسل کو ضرور منتقل کیا جانا چاہیے۔