فلسطینی صدر چین میں اور کشمیر ی معلق

792

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمو عباس نے اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے چین کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران فلسطینی صدر کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ ایسا استقبال ہم پلہ ریاستوں کے سربراہان کو دیا جاتا ہے۔ اس دورے میں چین کے صدر ژی جن پنگ نے محمود عباس کا استقبال کیا اور انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ محمود عباس نے صدر ژی کے ساتھ گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔ چینی وزیر خارجہ اور فلسطینی وزیر خارجہ کے درمیان بھی ملاقات اور مذاکرات ہوئے۔ جن میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے عہد وپیماں ہوئے۔ چین کے صدر محمود عباس نے مستقبل میں چین کے ساتھ تعاون اور تعلق کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو چینی صدر نے حقوق کی جنگ میں فلسطینی عوام کا ساتھ دینے کا دوٹوک اعلان کیا۔ محمود عباس اور ژی جن پنگ نے ایک مشترکہ تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اس دوران صدر ژی نے مسئلہ فلسطین کی بھرپور حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ثالثی کی پیشکش کو بھی دہرایا۔ صدر ژی نے تین نکاتی فارمولہ بھی پیش کیا۔ اوّل یہ کہ فلسطین کی ایسی خودمختار ریاست کا قیام جس کی حدود 1967 کے دور تک پھیلی ہوں اور اس ریاست کا دارالحکومت مشرقی پروشلم ہو۔ دوم یہ کہ فلسطین کی تعمیر وترقی کے لیے عالمی برادری کو آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ عالمی برداری تعمیر وترقی کے علاوہ انسانی بنیادوں پر مدد کر سکے۔ سوم یہ کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کو درست سمت میں گامزن رکھا جائے۔ یروشلم میں مقامات مقدسہ کی تاریخی حیثیت کا احترام کیا جائے اور ایسے اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات سے گریز کیا جائے جن کے باعث امن عمل کو خطرہ پیدا ہو۔ فلسطین اور اسرائیل کے بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہنے کو یقینی بنایا جائے اور چین اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

ان تین نکات کے ذریعے چین نے مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے میں اپنا وزن فلسطینی عوام کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور محمود عباس نے بھی گردوپیش کے حالات کی پروا کیے بغیر چین کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ فلسطین ایک تسلیم شدہ ملک نہیں بلکہ جس اتھارٹی کی سربراہی محمود عباس کے پاس اس نے اسرائیل کے ساتھ باہمی معاہدے سے جنم لیا ہے جسے دنیا اوسلو معاہدے کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس کے باوجود چین نے فلسطینی صدر کو ایک تسلیم شدہ ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول کردے کر آنے والے دنوں میں اپنی مشرق وسطیٰ اور فلسطین پالیسی کی ایک دھندلی سی تصویر دکھا دی۔ چین اس وقت دنیا کی ایک متبادل طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہے اور وہ خود کو ایک عالمی اقتصادی دیو بنانے کے قریب ہے اور چین کا یہ ہیولا امریکا کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ چین مشرق وسطیٰ کے خیمے میں سر دے چکا ہے۔ سعودی عرب جو امریکا کا قریبی اتحادی تھا اب چین کے قریب ہورہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش چین کی ثالثی سے ختم ہو رہی ہے۔ چین اب اس راہ پر آگے قدم بڑھا رہا ہے اور وہ فلسطین کے تنازعے میں ثالث کے طور پر اُبھرنا چاہتا ہے۔ فلسطینی عوام نے بھی چین کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ برطانوی حکومت کا پیدا کردہ ہے اور یہ امریکا کو ورثے میں ملا ہے اور پچھتر برس میں امریکا نے اس مسئلے میں اپنا مرکزی کردار بحال رکھا ہے۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کے نام پر اپنا سارا وزن فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کے پلڑے میں ڈالے رکھا جس کے نتیجے میں فلسطین ایک دائرہ سے نقطہ بنا اور اسرائیل ایک نقطے سے دائرہ بن گیا۔ حد تو یہ امریکا نے اس تحریک کی پیٹھ میں آخری چھرا اس وقت گھونپا جب امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا۔ جس سے فلسطین کی ریاست کے اُبھرنے کے تمام امکانات معدوم ہو کر رہ گئے۔ اب پچھتر سال کا امریکا کا قائم کردہ اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے فلسطینیوں نے عالمی منظر پر اُبھرتے ہوئے چین کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کی طرح برطانیہ کے عہد کا پیدا کردہ اور امریکا کو ورثے یا ترکے میں ملنے والا جنوبی ایشیائی مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ جسے امریکا نے فلسطین کے انداز میں ہی مسئلے کے طور پر اس انداز سے سنبھال رکھا کہ اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔ جب بھی پاکستان یا کشمیریوں نے یہ اسٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کی امریکا دوڑا دوڑا آیا اور اس کوشش کو ناکام بنا گیا۔ اس کی ایک کوشش 1962 کو چین بھارت جنگ تھی جب چین نے پاکستان کو پیشکش کی وہ کشمیر میں پیش قدمی کرے اور چین بھارت سے لڑتے ہوئے اس محاذ پر پاکستان کی مدد کرے گا۔ امریکا کو اس پیشکش کی بھنک پڑی تو انہوں نے ایوب خان پر دبائو ڈالا اور یہ وعدہ کیا کہ چین بھارت جنگ ختم ہوتے ہی امریکا مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان نے یہ ٹرین مس کردی اور کشمیر کی آزادی یا پاکستان کی بڑی پیش قدمی کا موقع گنوادیا۔ امریکا کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا تھا نہ کیا مگر اس موقع وامکان سے محروم ہوجانے نے کشمیریوں کا دکھوں بھرا سفر لمبا کر دیا۔

1964 میں چین کے وزیر خارجہ لیو شائوچی پاکستان کے دورے پر آئے اور چین کی قیادت بھارت سے جنگ کی تلخ یادوں کے زیر اثر تھی۔ چینی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کشمیری قیادت سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اس ملاقات کے لیے کشمیریوں کا وفد ترتیب دیا گیا جس میں آزادکشمیر کی نمائندگی سردار عبدالقیوم خان اور مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی پیر مقبول گیلانی کررہے تھے۔ اس وفد کے ساتھ چینی وزیر خارجہ نے کشمیری قیادت کو ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی حتیٰ کہ مشترکہ عسکری پلان بھی زیر بحث آیا۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیری قیادت انہیں ایسے نوجوان فراہم کرے جنہیں گوریلا جنگ کی تربیت دی جائے۔ اس پیشکش کے جواب میں کشمیری قیادت نے کہا کہ یہ تجویز حکومت پاکستان کو دی جائے کیونکہ کشمیری قیادت اس معاملے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ جس پر چینی وزیر خارجہ نے طنزاً کہا کہ تحریک کشمیریوں کی آزادی کی ہے اور فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے یہ کتنی عجیب بات ہے۔ یوں خطے میں امریکا کی سرپرستی میں قائم اسٹیٹس کو ٹوٹنے کا یہ موقع بھی ضائع ہوگیا۔

الجزائر میں چینی صدر چواین لائی اور شیخ محمد عبداللہ کی ملاقات بھی چین اور کشمیر کے درمیان براہ راست ربط وتعلق کی خواہش کی آئینہ دار تھی۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا یہ معنی خیز بیان سامنے آیا تھا کہ کشمیر سی پیک کے فوائد سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ اب حال ہی میں آزادکشمیر کے سیاست دانوں نے پاکستان آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ایک سیمینار کے بعد اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں حکومت پاکستان سے آزاد کشمیر حکومت کو انقلابی حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو ساٹھ کی دہائی میں سامنے آیا تھا اور حکومت پاکستان نے سنجیدگی کے ساتھ اس مطالبے پر غور شروع کیا تھا۔ کے ایچ خورشید کی حکومت نے کراچی میں مقیم سفارت کاروں سے بھی خطوط کے ذریعے اس مہم کے حمایت کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی دوران پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر نے آزادکشمیر کا دورہ کیا تھا اور انہیں ایک بیرونی مہمان کا پروٹوکول دیا گیا تھا۔ اس مہم سے ایک بار پھر اسٹیٹس کو ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو اور یہ مہم لپیٹ دی گئی۔ اب اگر پاکستان امریکا کے کھونٹے سے بدستور بندھا رہتا ہے تو پھر مستقبل قریب میں کشمیر کے حوالے سے کچھ نیا ہونا ممکن نہیں بلکہ پاکستان پرانی پوزیشن سے بھی محروم ہوتا چلا جائے گا۔ پاکستان پچھتر سال کا اسٹیٹس کو توڑ کر کشمیریوں کو محمود عباس کی طرح نئی فضائوں میں نئی اُڑانوں کا اِذن دیتا ہے تو مسئلہ کشمیر کے حل کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ سردست پاکستان اگلے پچھتر برس میں بھی اسٹیٹس کو کو برقرار رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو ازخود ایک المیہ سے کم نہیں۔