ہمارے ہاں پیدائشی سرٹیفکیٹ، تعلیمی اسناد، قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات میں صرف باپ کا نام لکھا جاتا تھا، لیکن اب مغرب کے اتباع میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ میں ماں کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اسلام نسب کی حفاظت چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور وہی ہے جس نے پانی (کے قطرے) سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس سے نسبی اور سسرالی رشتے بنائے اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے، (الفرقان: 54)‘‘۔
رسول اللہؐ نے اپنے نسب کی طہارت کو مقامِ مدح میں بیان فرمایا: ’’میرے سلسلۂ نسب میں ابوین کریمین سے لے کر سیدنا آدم وحواؑ تک جو آباء واجداد اور اُمّہات وجَدَّات آتے ہیں، اُن کا تعلق نکاح سے قائم ہوا ہے، بدکاری سے قائم نہیں ہوا‘‘، (مصنف عبدالرزاق، المعجم الاوسط) نیز رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے اپنا نسب اپنے (حقیقی) باپ کے علاوہ دیدہ ودانستہ کسی اور کی طرف منسوب کیا تو اُس پر جنت حرام ہے‘‘۔ (بخاری)
’’سیدنا ابوبُردہ بن ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر نے مجھ سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد (عمربن خطاب) نے تمہارے والد (ابوموسیٰ اشعری) سے کیا کہا تھا، میں نے کہا: مجھے معلوم نہیں!، انہوں نے بتایا: میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا: اے ابوموسیٰ! کیا تم اس پر خوش ہوگے کہ رسول اللہؐ کے ساتھ ہمارا اسلام قبول کرنا، آپ کے ساتھ ہماری ہجرت، ہمارا جہاد اور (آپ کے اتّباع میں) ہم نے جو نیک اعمال کیے ہیں، وہ ہمارے لیے (آخرت میں) ٹھنڈک (اور راحت) کا سبب بن جائیں اور وہ تمام کام جو ہم نے آپ کے بعد کیے، ان کے بارے میں ہم برابر سرابر چھوٹ جائیں۔ اس پر آپ کے والد (ابوموسیٰ اشعری) نے کہا: نہیں! اللہ کی قسم! ہم نے رسول اللہؐ کے بعد جہاد کیا ہے، نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور (دوسرے) بہت سے نیک کام کیے ہیں اور ہمارے ہاتھوں پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، لہٰذا ہم ان سب حَسنات پر بھی (بہت بڑے) اجر کی امید رکھتے ہیں، (عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:) اس پر میرے والد (عمر بن خطاب) نے کہا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے! میں ضرور چاہتا ہوں کہ رسول اللہؐ کی معیّت میں ہم نے جو نیک کام کیے وہ ہمارے لیے اخروی نَجات کا سبب بن جائیں اور وہ سارے نیک کام جو ہم نے آپ کے بعد کیے ہیں، اُن کی جوابدہی میں ہم برابر سرابر چھوٹ جائیں اور ہم کو نجات مل جائے، (ابوبردہ کہتے ہیں:) تب میں نے کہا: بے شک اللہ کی قسم! آپ کے والد میرے والد سے بہتر تھے‘‘۔ (بخاری)
سیدنا عمر فاروقؓ کا اسلام میں بڑا مقام ہے، وہ رسول اللہؐ کے دوسرے خلیفۂ راشد تھے، اُن کے عہدِ خلافت میں اُس دور کی دو سپرپاورز قیصر وکسریٰ اسلام کی عظمت کے آگے سرنگوں ہوئیں۔ اسلام اُس دور کی واحد سپر پاور بنا، لیکن سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہی کا اس قدر خوف تھا اور اُن کے دل میں خشیتِ الٰہی کا اتنا غلبہ تھا کہ اس کے باوجودوہ آخرت کی جواب دہی کے تصور سے لرزاں تھے۔ یہ تقوے کا اعلیٰ مقام ہے، وہ اسلام کے لیے اپنی بے پایاں اور بے نظیر خدمات پر اتراتے نہیں تھے، بلکہ پیکرِ عَجز وانکسار تھے، کیونکہ اُن کی فکررضائے الوہیت اور منشائے رسالت میں ڈھلی ہوئی تھی۔
’’ابواُمیّہ شَعبانی بیان کرتے ہیں: میں ابوثعلبہ خُشَنی کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: اس آیت کا آپ کیا کرو گے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اپنی فکر کرو، اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، انہوں نے جواب دیا: میں نے اس کی بابت سب سے بڑی باخبر شخصیت یعنی رسول اللہؐ سے پوچھا تھا: آپؐ نے فرمایا: بلکہ نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو حتیٰ کہ ایسا وقت آجائے: تم دیکھو کہ کمینوں کا حکم مانا جارہا ہے، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو (آخرت پر) ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے، (تو یہ مشکل وقت ہوگا، پس ایسے وقت میں) اپنی نجات کی فکر کرو اور عوام کا معاملہ چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے پیچھے اتنے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا، پس ایسے حالات میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے ایسے پچاس نکوکار افراد کے برابر اجر ملے گا جو تم جیسا کام کریں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عرض کیا گیا: یارسول اللہ! اُس دور کے پچاس افراد کے برابر یا ہمارے پچاس افراد کے برابر، آپؐ نے فرمایا: تمہارے پچاس افراد (یعنی صحابۂ کرام) کے برابر اجر ملے گا‘‘۔ (سنن ترمذی)
دراصل سائل کو شبہ تھا کہ امت کی ذمے داری تو ’’اَمْر بِالْمَعْرُوْف اور نَہی عَنِ الْمُنْکَر‘‘ ہے، لہٰذا ہمیں تو پوری انسانیت کو گمراہی سے بچانے کی تدبیر کرنا ہے، جبکہ آیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے کہ اپنی فکر کرو، جیسا کہ شیخ ابراہیم ذوق نے کہا ہے: ’’رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو ٭ تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘، تو حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ہم اصلاحِ امت کی ذمے داری سے نہ لاتعلق رہ سکتے ہیں اور نہ بری الذمہ ہوسکتے ہیں، سوائے اس کے کہ ایسا مشکل دور آجائے، جب کلمۂ حق کہنا عملاً ناممکن بنادیا جائے، جیساکہ سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے اور بالآخر قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوکر آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی: ’’اے میرے ربّ! تو زمین پر کافروں میں سے ایک بھی بسنے والا نہ چھوڑ، بے شک تو اگر انہیں چھوڑے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور صرف ایسے افراد کو جنم دیں گے جو بدکار سخت کافر ہوں گے‘‘۔ (نوح: 26-27) سو ایسی حالت میں حدیث پاک میں فرمایا: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: عنقریب فتنے ہوں گے، اُس وقت بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہوا چلنے والا سے بہتر ہوگا، چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو اِن فتنوں میں جھانکے گا، وہ اسے ہلاک کردیں گے اور جس کو کوئی پناہ یا عافیت کی جگہ مل جائے، وہ اُس پناہ کو حاصل کرلے‘‘۔ (بخاری)
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جبریلؑ کو حکم فرماتا ہے: فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبرئیل امین عرض کرتے ہیں: اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی) بندہ ہے، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا‘‘۔ (شعب الایمان)
حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں، مُنکَرات کا چلن عام ہوتا رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی کاوش تو دور کی بات ہے، حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پر اس کی جبیں پر کبھی شکن بھی نہیں آئی، صرف اپنی عبادت، ذکر اذکار اور تسبیحات ودرود میں مشغول رہا، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔ یہی وجہ ہے: موجودہ دور میں جو دین دار اشخاص یا جماعتیں حسبِ توفیق خیر کی دعوت تو دیتی رہتی ہیں، لیکن اپنے دور کے سرکشوں، فاسقوں، فاجروں اور ظالموں کو اُن کی سرکشی، فسق وفجور اور ظلم پر ٹوکتی نہیں ہیں، تو لبرل لوگ کہتے ہیں: ’’یہ بڑے اچھے لوگ ہیں، کسی کو کچھ نہیں کہتے، نہ کسی سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، بے ضرر ہیں، بھلے مانس ہیں، دین ہر ایک کا نجی معاملہ ہے، کسی کو دوسرے کی برائیوں سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، جبکہ اُمت کی ذمے داری تو انسانیت کو دینی اور اخلاقی تباہی اور بربادی سے روکنا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جائو اور اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو یادکرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں کو باہم جوڑ دیا تو تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے،
تواس نے تمہیں اُس سے نجات دی‘‘، (آل عمران: 103) الغرض جب تک اصلاحِ امت کے امکانات بالکل معدوم نہ ہوجائیں اور انسان بے بس نہ ہوجائے، اُسے اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بے شک میری اور تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کا ماحول روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے اور وہ انہیں نکالنے لگا، مگر وہ اس پرغالب آگئے اور آگ میں گھستے چلے گئے، سو میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں اور وہ اس آگ میں گرے جارہے ہیں‘‘، (بخاری) مسلم کی روایت میں ہے: ’’اور تم اُس آگ میں گھسے جارہے ہو‘‘۔ (مسلم)
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے کہا: یہ دنیا دار خطیب ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو نظر انداز کردیتے تھے، حالانکہ وہ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے تھے (اور جانتے تھے کہ احکامِ شرعیہ سے کسی کو استثنا نہیں)، پس کیا وہ عقل نہیں رکھتے‘‘، (مسند احمد) ’’(معراج کی شب) آپ ؐکا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، جونہی زبانیں اور ہونٹ کٹ جاتے، وہ پھر پہلی صورت پر بحال ہوجاتے اور اُن میں کوئی کمی نہ ہوتی، نبی کریمؐ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے کہا: یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں‘‘۔ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِی)(جاری ہے)